کوئی تو لے کے چلے مجھ کو ظلمتوں سے پرے

طالش طور

محفلین
کوئی تو لے کے چلے مجھ کو ظلمتوں سے پرے
جہان بھر کے دکھوں اور مصیبتوں سے پرے

وفا جفا کی کہانی نہ منصفوں کو سنا
دلوں کے فیصلے ہوں گے عدالتوں سے پرے

نہیں ہے چاہ کسی حور کی یا غلماں کی
میں تیرے ساتھ ہی رہ لوں گا جنتوں سے پرے

وہ میرے شہر میں آئے تھے دفعتًا لیکن
مجھے رکھا گیا ان کی زیارتوں سے پرے

غموں کی آندھیاں آخر اسے اڑا کے رہیں
جو آشیانہ بنایا تھا کلفتوں سے پرے

ہر ایک چوٹ پہ میں نے انہیں پکارا مگر
رہی صدا مری ان کی سماعتوں سے پرے

بلند ہوتی گئیں نفرتوں کی دیواریں

پہنچ گئے سبھی رشتے محبتوں سے پرے

میں مر چکا ہوں یا زندہ ہوں اس تذبذب میں
تمام عمر رہا میں عبادتوں سے پرے

کوئی تو قافلہ سالار ہم کو ایسا ملے
رکھے جو ہم سفرو کو کدورتوں سے پرے

وہیں پہ خاک میں مل جائے گی مری ہستی
جو تو نے کر دیا اپنی عنایتوں سے پرے

ہر ایک شخص کی باتوں میں زہر کیسا ہے
منافقت میں ہیں لہجے حلاوتوں سے پرے

جہاں میں بے سروساماں ہی رہ گیا طالش
سدا خلوص جو رکھا ضرورتوں سے پرے

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
یاسر شاہ
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل.۔ عبد الرؤف کی بات درست ہے
میں مر چکا ہوں یا زندہ ہوں اس تذبذب میں
تمام عمر رہا میں عبادتوں سے پرے
.. یا زندہ... کی جگہ 'کہ زندہ' بہتر ہو گا

کوئی تو قافلہ سالار ہم کو ایسا ملے
رکھے جو ہم سفرو کو کدورتوں سے پرے
.. ہم سفروں.. سفرو شاید ٹائپو ہے، لیکن کدورتوں کا سفر سے ربط نہیں بنتا۔ اور اگر بنتا بھی ہو، تو صرف ہم سفروں کو ہی دور رکھنے کی ضرورت ہے، خود ہم کو نہیں! میرا مشورہ ہے کہ اسے نکال ہی دیں
 

طالش طور

محفلین
درست ہے غزل.۔ عبد الرؤف کی بات درست ہے
میں مر چکا ہوں یا زندہ ہوں اس تذبذب میں
تمام عمر رہا میں عبادتوں سے پرے
.. یا زندہ... کی جگہ 'کہ زندہ' بہتر ہو گا

کوئی تو قافلہ سالار ہم کو ایسا ملے
رکھے جو ہم سفرو کو کدورتوں سے پرے
.. ہم سفروں.. سفرو شاید ٹائپو ہے، لیکن کدورتوں کا سفر سے ربط نہیں بنتا۔ اور اگر بنتا بھی ہو، تو صرف ہم سفروں کو ہی دور رکھنے کی ضرورت ہے، خود ہم کو نہیں! میرا مشورہ ہے کہ اسے نکال ہی دیں

کوئی تو لے کے چلے مجھ کو ظلمتوں سے پرے
جہان بھر کے دکھوں اور مصیبتوں سے پرے

وفا جفا کی کہانی نہ منصفوں کو سنا
دلوں کے فیصلے ہوں گے عدالتوں سے پرے

نہیں ہے چاہ کسی حور کی یا غلماں کی
میں تیرے ساتھ ہی رہ لوں گا جنتوں سے پرے

وہ میرے شہر میں آئے تھے دفعتًا لیکن
مجھے رکھا گیا ان کی زیارتوں سے پرے

غموں کی آندھیاں آخر اسے اڑا کے رہیں
جو آشیانہ بنایا تھا کلفتوں سے پرے

ہر ایک چوٹ پہ میں نے انہیں پکارا مگر
رہی صدا مری ان کی سماعتوں سے پرے

بلند ہوتی گئیں نفرتوں کی دیواریں
پہنچ گئے سبھی رشتے محبتوں سے پرے

میں مر چکا ہوں کہ زندہ ہوں اس تذبذب میں
تمام عمر رہا میں عبادتوں سے پرے

کوئی تو قافلہ سالار ہم کو ایسا ملے
رکھے جو قافلہ سارا صعوبتوں سے پرے

وہیں پہ خاک میں مل جائے گی مری ہستی
جو تو نے کر دیا اپنی عنایتوں سے پرے

ہر ایک شخص کی باتوں میں زہر کیسا ہے
ہیں کس غرور میں لہجے حلاوتوں سے پرے

جہاں میں بے سروساماں ہی رہ گیا طالش
سدا خلوص جو رکھا ضرورتوں سے پرے

سر نظر ثانی کی درخواست ہے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل جیسا کہ کہہ چکا ہوں
قافلے والے شعر میں قافلہ لفظ دہرایا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں کارواں کر دو۔ یا وہی پرانا لفظ.... ہم سفروں
 

طالش طور

محفلین
درست ہے غزل جیسا کہ کہہ چکا ہوں
قافلے والے شعر میں قافلہ لفظ دہرایا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں کارواں کر دو۔ یا وہی پرانا لفظ.... ہم سفروں
کوئی تو قافلہ سالار ہم کو ایسا ملے
جو کاروان کو رکھے صعوبتوں سے پرے

سر اگر یوں کر لیا جائے تو
 
Top