عمر سیف
محفلین
کوئی تیر دل میں اُتر گیا کوئی بات لب پہ اٹک گئی
اے جنون تُو نے بُرا کیا، مری سوچ راہ سے بھٹک گئی
بڑھے روح و جسم کے فاصلے یہاں عزتوں کی تلاش میں
جو کلی نویدِ بہار تھی، وہی باغباں کو کھٹک گئی
چلے جس کو تھے سبھی نوچنے یہاں باغبان و گُل و ثمر
وہ کلی اُمیدِ سحر بنی، وہ کلی تو پھر بھی چٹک گئی
یہاں زندگی کی تلاش میں کئی ماہ و سال گزر گئے
مری سوچ تختہءِ دار پر جو لٹک گئی سو لٹک گئی
آصف اقبال