سید شہزاد ناصر
محفلین
کوئی خواب دشتِ فراق میں سرِشام چہرہ کشا ہُوا
مِری چشمِ تر میں رُکا نہیں کہ تھا رَتجگوں کا ڈسا ہُوا
مِرے دِل کو رکھتا ہے شادماں، مرے ہونٹ رکھتا ہے گُل فشاں
وہی ایک لفظ جو آپ نے مِرے کان میں ہے کہا ہُوا
ہے نِگاہ میں مِری آج تک وہ نِگاہ کوئی جُھکی ہُوئی
وہ جو دھیان تھا کِسی دھیان میں، وہیں آج بھی ہے لگا ہُوا
مِرے رَتجگوں کے فشار میں, مِری خواہشوں کے غبار میں
وُہی ایک وعدہ گلاب سا سرِ نخل جاں ہے کِھلا ہُوا
تری چشمِ خُوش کی پناہ میں کِسی خواب زار کی راہ میں
مِرے غم کا چاند ٹھہر گیا کہ تھا رات بھر کا تھکا ہُوا
ہے یہ مُختصر، رہِ عشق پر، نہیں آپ ہم، رہے ہم سَفر
تو لوں کس لیے یہ مباحثہ، کہاں, کون, کیسے, جُدا ہُوا
کِسی دل کُشا سی پُکار سے اُسی ایک بادِ بہار سے
کہیں برگ برگ نمو مِلی، کہیں زخم زخم ہَرا ہُوا
ترے شہرِ عَدل سے آج کیا سبھی درد مند چلے گئے
نہیں کاغذی کوئی پیر ہن، نہیں ہاتھ کوئی اُٹھا ہُوا
مِری چشمِ تر میں رُکا نہیں کہ تھا رَتجگوں کا ڈسا ہُوا
مِرے دِل کو رکھتا ہے شادماں، مرے ہونٹ رکھتا ہے گُل فشاں
وہی ایک لفظ جو آپ نے مِرے کان میں ہے کہا ہُوا
ہے نِگاہ میں مِری آج تک وہ نِگاہ کوئی جُھکی ہُوئی
وہ جو دھیان تھا کِسی دھیان میں، وہیں آج بھی ہے لگا ہُوا
مِرے رَتجگوں کے فشار میں, مِری خواہشوں کے غبار میں
وُہی ایک وعدہ گلاب سا سرِ نخل جاں ہے کِھلا ہُوا
تری چشمِ خُوش کی پناہ میں کِسی خواب زار کی راہ میں
مِرے غم کا چاند ٹھہر گیا کہ تھا رات بھر کا تھکا ہُوا
ہے یہ مُختصر، رہِ عشق پر، نہیں آپ ہم، رہے ہم سَفر
تو لوں کس لیے یہ مباحثہ، کہاں, کون, کیسے, جُدا ہُوا
کِسی دل کُشا سی پُکار سے اُسی ایک بادِ بہار سے
کہیں برگ برگ نمو مِلی، کہیں زخم زخم ہَرا ہُوا
ترے شہرِ عَدل سے آج کیا سبھی درد مند چلے گئے
نہیں کاغذی کوئی پیر ہن، نہیں ہاتھ کوئی اُٹھا ہُوا