کاشفی
محفلین
کوئی خوش لمس دستِ یاسمیں
(نصرت زہرا)
(نصرت زہرا)
پروین جب اس دنیا سے رخصت ہوئی تو اسکی ذات کا سب سے خوبصورت اثبات محض پندرہ برس کاتھا اس نے ایک بار کہا تھا کہ وہ چاہتی ہے کہ مراد کو کامیاب انسان کے روپ میں دیکھے مگر اس کی یہ خواہش تشنہ رہ گئی اب جبکہ اسے دنیا سے کوچ کئے پندرہ برس گزر گئے ہیں مرادسوفٹ وئیر انجینئر ہے اور اسکے خوابوں کی عملی تفسیربھی، اسکی محبتوں کا محور اسکی اکلوتی اولاد اب ایک خوش لمس دستِ یاسمیں کا ہمسفر ہے جسکی پیشنگوئی اس نے کئی برس پہلے کردی تھی ۔
زیادہ دن نہ گزریں گے
کہ میرے ہاتھوں کی دھیمی حرارت بھی
تجھے کافی نہیں ہوگی
کوئی خوش لمس دستِ یاسمیں آکر
گلابی رنگ حدت تیرے ہاتھوں میں سمودے گا
مرا دل تجھ کو کھودے گا
میں باقی عمر تیرا راستہ تکتی رہوں گی
میں ماں ہوں
اور مری قسمت جدائی ہے
(انکار جدائی اورہجر سے پروین کو گہرا ربط رہا ہے یہاں تک کہ اسے یہ کہنا پڑا )
فراق میں ہی رہے ہم تو ساری عمر مگر
ستارہ ساکوئی نزدیکِ جان روشن تھا
کہ میرے ہاتھوں کی دھیمی حرارت بھی
تجھے کافی نہیں ہوگی
کوئی خوش لمس دستِ یاسمیں آکر
گلابی رنگ حدت تیرے ہاتھوں میں سمودے گا
مرا دل تجھ کو کھودے گا
میں باقی عمر تیرا راستہ تکتی رہوں گی
میں ماں ہوں
اور مری قسمت جدائی ہے
(انکار جدائی اورہجر سے پروین کو گہرا ربط رہا ہے یہاں تک کہ اسے یہ کہنا پڑا )
فراق میں ہی رہے ہم تو ساری عمر مگر
ستارہ ساکوئی نزدیکِ جان روشن تھا
اسے مراد کی بڑی فکر تھی اور وہ کہتی تھی (He's all i have)خدا نے عرشین کی شکل میں مراد کی تنہائی کادرماں تراشا ہے ہزاروں خوش رنگ تتلیوں نے اس ساعت کا جشن منایاوہ اس جہانِ رنگ و بو میں ہوتی تو نجانے اس ساعت کا جشن کا طرح مناتی کیونکہ اسکی بہو عرشین ہوبہو اس کی نظموں میں بسی ہوئی خوشبو کا پر تو ہے۔
خدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
دیارِوقت سے تو شادماں گزرتا رہے(کفِ آئینہ)