کوئی خیال و خواب نہیں ہے قرینِ دل

غزل​
کوئی خیال و خواب نہیں ہے قرینِ دل۔ ۔ ۔
بنجر سی ہوگئی ہے مری سرزمینِ دل۔ ۔
کوئی مجاہدہ ہے نہ کوئی مشاہدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک منتظر سکوُت ہوا ہے مکینِ دل۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مہمان تھا، چلا گیا، جانا ہی تھا اسے۔ ۔ ۔
اک یاد رہ گئی سو ہوئی ہمنشینِ دل۔ ۔ ۔
وہ اشک جو نکلے تھے زمیں پر نہیں گرے
موتی تھے قیمتی سو ہوئے تہ نشینِ دل
محمود سربسجدہ ہوئے گو حرم میں تم
کب وقت آئے گا کہ جھکے گی جبینِ دل​
 

مغزل

محفلین
رسید حاضر است، محمود صاحب، جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ ’’ رندا ‘‘ لگانے کے عمل میں ’’ شعریت ‘‘ بھی فرار ہوگئی۔ بہر حال اساتذہ کی رائے کا منتظر ہوں۔والسلام
 

الف عین

لائبریرین
اشعار تو اچھے ہیں، شعریت کی کمی تو نہیں ہے، البتہ زمین ایسی ہے جس میں استادی دکھانے کی ضرورت تھی جو محمود نے دکھا دی ہے۔
وہ اشک جو نکلے تھے زمیں پر نہیں گرے
یہ مصرع اس بحر میں نہیں ہے، محض نکلے کی جگہ ’گرے‘ کرنے سے وزن میں آ جاتا ہے۔
اور یہ مصرع
اک منتظر سکوُت ہوا ہے مکینِ دل
اگر منتظرِ سکوت یے تو بحر سے خارج ہے، اور محض منتظر سکوت ہے، تو میری ناقص عقل سے خارج!
 
بہت شکریہ سر۔ ۔ اگر یوں کردیں تو کیسا ہے:
وہ اشک جو بہے تھے، زمیں پر نہیں گرے
موتی تھے قیمتی سو ہوئے تہہ نشینِ دل​
باقی جہاں تک منتظر سکوت کا تعلق ہے، میں نے انہی معنوں میں استعمال کیا ہے گویا سکُوت پر بھی انتظار کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ سکوت اگر باتیں کرسکتا ہے تو انتظار بھی تو کرسکتا ہے:)
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکُوت
 

الف عین

لائبریرین
محمود، اب سے تم کو غزنوی لکھوں گا، ورنہ مغل کا بھی پورا نام لکھنا پڑے گا، پرانے رکن ہونے کا فائدہ دے دوں ان کو!!
تو غزنوی، خوشی ہوئی تمہاری ترمیم اور وضاحت سے، ان معانی میں واقعی شعر بہتر ہے ۔
 

مغزل

محفلین
ارے احمد میاں بھی آئے تھے ۔ جناب آپ کا آنا اگر ہمارے غیاب پر ہی منطبق ہے تو ہم ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتے ہیں ۔
 
Top