کوئی دم بخود تھا وہ ہموا مری دسترس سے نکل گیا

کوئی دم بخود تھا وہ ہموا مری دسترس سے نکل گیا
مری انجمن میں اداس تھا جو گیا تو پھر بھی خجل گیا
کئی درد سوکھ کے مرگئے مرے وہم دھوڑ میں اڑ گئے
مری آرزو میں فریب تھا مری سادگی کو مسل گیا
مری حسرتوں کو نظر لگی تو کوئی سبیل نہ ہو سکی
جو غرور مجھ کو عزیز تھا وہ کسی خیال میں جل گیا
وہ جو نفرتوں کی فصیل تھی وہی دل لگی مجھے یاد ہے
مرے ہاتھ میں وہ نگیں تھا جو مری لغزشوں سے پھسل گیا
جو مرے حریف کا قہقہہ تھا وہ زندگی کا چراغ ہے
مرا غم کبھی جو ہرا ہوا مرے رات ودن کو بدل گیا
اسامہ جمشید
اکتور ۲۰۱۶م​
 
Top