آتش کوئی عشق میں مجُھ سے افزوں نہ نکلا - آتش

فرخ منظور

لائبریرین
کوئی عشق میں مجُھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا

بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا

ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانہء زلفِ شب گوں نہ نکلا

پہنچتا اسے مصرعِ تازہ و تر
قدِ یار سا سروِ موزوں نہ نکلا

رہا سال ہا سال جنگل میں آتِش
مرے سامنے بیدِ مجنوں نہ نکلا

*** خواجہ حیدر علی آتش
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ فرخ صاحب۔ میں نے آتش کی اس غزل کا صرف یہ شعر سنا تھا:

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ ملائکہ، وارث صاحب، فاتح صاحب اور فرحت کیانی - یہ بھی اسی لیے پوسٹ کی کہ اسکا ایک شعر اکثر لوگوں نے سنا ہوگا لیکن پوری غزل نہیں پڑھی ہوگی - :)
 

امین شارق

محفلین
اچھی غزل ہے

کوئی عشق میں مجُھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا
 
Top