کوئی لوٹا دئے وہ میرے پیارے پیارے دن ۔۔۔۔۔

عندلیب

محفلین
ایک ہفتہ قبل فلم تھری ایڈیڈز دیکھنے کا اتفاق ہوا تو بے شمار پرانی یادیں تازہ ہوگئیں ۔۔۔
مجھے بھی اپنے کالج کے دن یاد آگئے، کیا خوب دن تھے وہ بھی نہ کوئی فکر نہ کوئی پریشانی بس کبھی کبھی امتحانات میں پڑھائی کا پاس ہونے کا ٹینشن ہوا کرتا تھا (صرف پاس ہونے کا سمجھ رہے ہیں ناں آپ سب ) خیرتو میں یہ بتا رہی تھی کہ کیا دن تھے وہ بھی کسی کا مذاق بنادینا، بلاوجہ ہنسنا، پریڈس بنک کرکے کالج کی چھت پر بیٹھنا ، بلاوجہ کئی کئ فلور سیڑھیاں چھڑنا اترنا ، کیسی کیسی شرارتیں کرتے تھے آج سوچتی ہوں تو عجیب لگتا ہے ۔
مجھے آج بھی یاد ہے میرے کالج کے پہلے دن کیمسٹری لکچرر نے ایک سوال پوچھا تھا کہ آپ سب آگے کیا بننا چاہتے ہیں کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی کچھ جب ہماری باری آئی تو ہم نے جواب دیا کہ پہلے بیوی پھر ماں سب ہنس رہے تھے ہمارے لکچرر نے گھور کر بس اتنا کہا تھا جوچاہتی ہو بنوبس اپنا فرض ایمانداری سے نبھانا ، واقعی آج ہم صرف بیوی اور ماں بن کر رہ گئے ہیں ۔
بس ہمشہ خوابوں کی دنیا رہا کرتے تھے جب شادی ہوئی ماں بنے تو پتہ چلا کہ زندگی کی اصلی حقیقت کیا ہے :(۔۔۔
میرے ساتھ ساتھ آپ سب بھی اپنے کالج کے دنوں کو تازہ کریں اور اپنی شراتیں یہاں ہم سب کے ساتھ شئیر کریں ۔
 

عندلیب

محفلین
پر آپ کو بھی اپنی پرانی یادیں تازہ کرنا چاہئیے تھا بھائی صاحب ، کوئی پرانا واقعہ شئیر کر دیتے تو مزہ آجاتا ۔۔:grin:
 
میں اتنا دبا کچلا رہا ہوں اپیا کہ کبھی کوئی شرارت کی ہی نہیں۔ گو کہ ہمارے ایک دوست کا یہ کہنا ہے کہ تھری ایڈیٹس مووی ہم تین دوستوں پر منا بھائی ایم بی بی ایس کا ری میک ہے۔ :)
 
نادانستگی میں ایک شرارت ہم سے بھی سرزد ہوگئی تھی کالج کے دنوں میں۔ سیکنڈ سمسٹر کے امتحانات ہورہے تھے اور اپلائیڈ مکینکس کا پیپر تھا۔ جب امتحانی پرچہ سامنے آیا تو آنکھوں کے آگے تارے ناچ اُٹھے کیونکہ مطلوبہ پانچ سوالوں کی بجائے صرف دو سوال آتے تھے۔ بہرحال مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ دونوں سوال تو پہلے حل کئے پھر مدد کیلئے ادھر ادھر پکارا لیکن سب نفسی نفسی پکارتے نظر آئے۔ کلاس میں وسیع پیمانے پر نقل ہورہی تھی اور پانچوں سوالات کے جوابات گردش کررہے تھے لیکن ۔ ۔ ۔
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا۔ ۔ ۔۔ ۔
چنانچہ فی البدیہہ آمد شروع ہوئی اور بیٹھے بیٹھے دنیائے کالج کی بے ثباتی پر اور ہم مکتبوں کی طوطا چشمی پر نہایت سیرِ حاصل تبصرے کی صورت میں کچھ اشعار اور ایک دو قطعے موزوں کئے جن میں نگران صاحب سے زبانِ حسرت ترجمان میں یہ شکایت تھی کہ۔ ۔
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی۔ ۔ ۔ ۔
افسوس یہی ہورہا تھا کہ
برس رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
بہرحال وقت ختم ہونے پر پرچہ نگران صاحب کے حوالے کیا اور چلتے بنے۔۔ ۔ ۔
تین چار مہینے بعد جب یہ بات ذہن سے بالکل نکل چکی تھی ایک صبح کالج میں داخل ہوا تو ایک دوست نے رازدارانہ انداز میں آکر بتایا کہ خیریت اسی میں ہے کہ آج الٹے پاؤں لوٹ جاؤ۔ ۔ پوچھنے پر موصوف نے یہ انکشاف کیا کہ رزلٹ آگیا ہے اور مکینکس کے پیپر میں پورا سنٹر فیل ہے اور صرف ایک خوش نصیب کو پاس کیا گیا ہے اور اس خوش نصیب کا نام ہے 'محمود احمد غزنوی' :)
" لڑکے تمہیں ہی تلاش کررہے ہین بیٹا۔ ۔ ۔ "
آگے کی کہانی نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے:grin:
 
Top