عمران شناور
محفلین
کوئی مرکز بھی نہیں کوئی خلافت بھی نہیں
سب ہی حاکم ہیں مگر کوئی حکومت بھی نہیں
آمریت نے مرے ذہن میںنفرت بھر دی
میرے اشعار میں اب لفظِ محبت بھی نہیں
ایک اندازِ بغاوت ہے مرے لہجے میں
اب وہ پہلا سا مرا طرزِ خطابت بھی نہیں
وہ جو ہوتے تھے محافظ وہ مرے محسن تھے
رشتہء درد میں اب حفظِ نظامت بھی نہیں
جھوٹ ہی جھوٹ ہے یہ سارا نظامِ حرمت
اور اس جھوٹ پہ حاکم کو ندامت بھی نہیں
ہائے وہ لوگ جو بِکتے ہی چلے جاتے ہیں
َکاش مر جاتے مگر ان میںتو غیرت بھی نہیں
اہلِ انصاف بھی معزول ہوئے سچ کے لیے
اہلِ دربار میںکیا حسِّ ظرافت بھی نہیں
اپنی بد بختی وہیںجینا پڑا ہے ہم کو
جہاںانصاف نہیں اور عدالت بھی نہیں
سعد حالات بدل دیتے ہیں انساں کا مزاج
میرے الفاظ میںپہلی سی حلاوت بھی نہیں
(سعداللہ شاہ)
سب ہی حاکم ہیں مگر کوئی حکومت بھی نہیں
آمریت نے مرے ذہن میںنفرت بھر دی
میرے اشعار میں اب لفظِ محبت بھی نہیں
ایک اندازِ بغاوت ہے مرے لہجے میں
اب وہ پہلا سا مرا طرزِ خطابت بھی نہیں
وہ جو ہوتے تھے محافظ وہ مرے محسن تھے
رشتہء درد میں اب حفظِ نظامت بھی نہیں
جھوٹ ہی جھوٹ ہے یہ سارا نظامِ حرمت
اور اس جھوٹ پہ حاکم کو ندامت بھی نہیں
ہائے وہ لوگ جو بِکتے ہی چلے جاتے ہیں
َکاش مر جاتے مگر ان میںتو غیرت بھی نہیں
اہلِ انصاف بھی معزول ہوئے سچ کے لیے
اہلِ دربار میںکیا حسِّ ظرافت بھی نہیں
اپنی بد بختی وہیںجینا پڑا ہے ہم کو
جہاںانصاف نہیں اور عدالت بھی نہیں
سعد حالات بدل دیتے ہیں انساں کا مزاج
میرے الفاظ میںپہلی سی حلاوت بھی نہیں
(سعداللہ شاہ)