مغزل
محفلین
غزل
کوئی نغمہ بنو چاندنی نے کہا ، چاندنی کیلیے ایک تازہ غزل
کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا ، پھرکسی کیلیے ایک تازہ غزل
زخمِ فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے ، سانس لینے کی عادت میںجیتے ہوئے
اب بھی زندہ تم ، زندگی نے کہا ، زندگی کیلیے ایک تازہ غزل
ا س کی خواہش پہ تم کو بھروسہ بھی ہے، اس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے
لطف آیا تمھیں، گمرہی نے کہا، گمرہی کیلیے ایک تازہ غزل
ایسی دنیا میں کب تک گزارا کریں، تم ہی کہہ دو کہ کیسے گوارا کریں
رات مجھ سے مری بے بسی نے کہا ،بے بسی کیلیے ایک تازہ غزل
منظروں سے بہلنا ضروری نہیں ،گھر سے باہر نکلنا ضروری نہیں
دل کو روشن کرو ، روشنی نے کہا، روشنی کیلیے ایک تازہ غزل
میں عبادت بھی ہوں ،میں محبت بھی ہوں ،زندگی کی نمو کی علامت بھی ہوں
میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا ، اس نمی کیلیے ایک تازہ غزل
آرزوؤں کی مالا پرونے سے ہیں ، یہ زمیں آسماںمیرے ہونے سے ہیں
مجھ پہ بھی کچھ کہو ، آدمی نے کہا ، آدمی کیلیے ایک تازہ غزل
اپنی تنہائی میں رات میں تھا مگن ، ایک آہٹ ہوئی دھیان میں دفعتاً
مجھ سے باتیں کرو ، خامشی نے کہا ، خامشی کیلیے ایک تازہ غزل
جب رفاقت کا ساماں بہم کرلیا ، میں نے آخر اسے ہم قدم کرلیا
اب مرے دکھ سہو ، ہمرہی نے کہا ، ہمرہی کیلیے ایک تازہ غزل
عرفان ستّار
کوئی نغمہ بنو چاندنی نے کہا ، چاندنی کیلیے ایک تازہ غزل
کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا ، پھرکسی کیلیے ایک تازہ غزل
زخمِ فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے ، سانس لینے کی عادت میںجیتے ہوئے
اب بھی زندہ تم ، زندگی نے کہا ، زندگی کیلیے ایک تازہ غزل
ا س کی خواہش پہ تم کو بھروسہ بھی ہے، اس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے
لطف آیا تمھیں، گمرہی نے کہا، گمرہی کیلیے ایک تازہ غزل
ایسی دنیا میں کب تک گزارا کریں، تم ہی کہہ دو کہ کیسے گوارا کریں
رات مجھ سے مری بے بسی نے کہا ،بے بسی کیلیے ایک تازہ غزل
منظروں سے بہلنا ضروری نہیں ،گھر سے باہر نکلنا ضروری نہیں
دل کو روشن کرو ، روشنی نے کہا، روشنی کیلیے ایک تازہ غزل
میں عبادت بھی ہوں ،میں محبت بھی ہوں ،زندگی کی نمو کی علامت بھی ہوں
میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا ، اس نمی کیلیے ایک تازہ غزل
آرزوؤں کی مالا پرونے سے ہیں ، یہ زمیں آسماںمیرے ہونے سے ہیں
مجھ پہ بھی کچھ کہو ، آدمی نے کہا ، آدمی کیلیے ایک تازہ غزل
اپنی تنہائی میں رات میں تھا مگن ، ایک آہٹ ہوئی دھیان میں دفعتاً
مجھ سے باتیں کرو ، خامشی نے کہا ، خامشی کیلیے ایک تازہ غزل
جب رفاقت کا ساماں بہم کرلیا ، میں نے آخر اسے ہم قدم کرلیا
اب مرے دکھ سہو ، ہمرہی نے کہا ، ہمرہی کیلیے ایک تازہ غزل
عرفان ستّار