کوئی نہ غم ستائے میری دعا یہی ہے----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-----
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
کوئی نہ غم ستائے میری دعا یہی ہے
دکھ تجھ سے روٹھ جائے میری دعا یہی ہے
-------------
کوئی بنے سہارا تیرا بھی اس جہاں میں
تُو لوٹ کر نہ آئے میری دعا یہی ہے
-----------
دامن ترا بھرا ہو خوشیاں ہزار پا کر
جب پاس میرے آئے میری دعا یہی ہے
------------
دنیا بڑی ہے ظالم بنتی نہیں کسی کی
تجھ کو نہ یہ رلائے میری دعا یہی ہے
-------
کوئی بنے جو تیرا اپنا اسے بنا لو
میری یہی ہے رائے میری دعا یہی ہے
-------------
قسمت یہی تھی میری چھوٹا جو ساتھ تیرا
میری نہ یاد آئے میری دعا یہی ہے
---------
تم سوچنا نہ میرا اپنا خیال رکھنا
گھر تجھ کو راس آئے میری دعا یہی ہے
-------------
آئے گا کام تیرے ارشد کا ہے یہ وعدہ
کوئی بھی دکھ نہ آئے میری دعا یہی ہے
------------
 
عظیم
اصلاح کے بعد دوبارا
-------
کوئی نہ غم ستائے میری دعا یہی ہے
ہر دم خوشی اٹھائے میری دعا یہی ہے
-------------
اپنا سدا بنا کر کوئی تو تجھ کو رکھے
تُو لوت کر نہ آئے میری دعا یہی ہے
-----------
دامن ترا بھرا ہو خوشیاں ہزار پا کر
جب بھی کبھی تُو آئے میری دعا یہی ہے
------------
دنیا بڑی ہے ظالم بنتی نہیں کسی کی
تجھ کو نہ یہ رلائے میری دعا یہی ہے
-------
کوئی بنے جو تیرا اپنا اسے بنا لو
میری یہی ہے رائے میری دعا یہی ہے
-------------
قسمت یہی تھی میری چھوٹا جو ساتھ تیرا
میری نہ یاد آئے میری دعا یہی ہے
---------
اب سوچنا نہ میرا اپنا خیال رکھنا
گھر تجھ کو راس آئے میری دعا یہی ہے
-------------
ارشد کی سب دعائیں تیرے ہیں ساتھ ہر دم
خوشیاں ہزار پائے میری دعا یہی ہے
------------
 

عظیم

محفلین
کوئی نہ غم ستائے میری دعا یہی ہے
ہر دم خوشی اٹھائے میری دعا یہی ہے
-------------مطلع تو مجھے پہلے والا ہے درست اور اچھا لگ رہا ہے
اس مطلع کے دوسرے مصرع میں 'تو،تجھ' وغیرہ کی کمی ہے

اپنا سدا بنا کر کوئی تو تجھ کو رکھے
تُو لوت کر نہ آئے میری دعا یہی ہے
-----------اس کی بھی پہلی صورت بہتر تھی، بس اس کے پہلے مصرع میں 'اس جہاں' سے یہ لگتا ہے کہ دوسرے جہان کی بات ہے۔ اس کی جگہ اگر 'نگر' کر دیا جائے تو مجھے لگتا ہے کہ بہتر ہو جائے گا۔ اور 'کوئی' جو مطلع کے شروع میً بھی استعمال ہوا ہے اس کی بھی نشست بدلی جا سکتی ہے
مثلاً
تیرا بھی ہو سہارا کوئی تو اس نگر میں
تُو لوٹ کر نہ آئے.....

دامن ترا بھرا ہو خوشیاں ہزار پا کر
جب بھی کبھی تُو آئے میری دعا یہی ہے
------------'جب بھی کبھی' دیکھنے میں عجیب لگ رہا ہے
جب لوٹ کر تو آئے، یا واپس اگر تو آئے وغیرہ کر لیں

دنیا بڑی ہے ظالم بنتی نہیں کسی کی
تجھ کو نہ یہ رلائے میری دعا یہی ہے
-------بڑی کی جگہ بہت میرا خیال ہے کہ اچھا لگے گا
دوسرے میں کسی طرح لیکن یا مگر لے آئیں تو شعر درست ہو جائے گا
یا پہلے مصرع میں ایک بات رکھ لیں مثلاً ظالم کہہ کر 'بنتی نہیں کسی کی' کو ہٹا کر اس کی جگہ کچھ ایسا لے آئیں جس کی وجہ سے دوسرے مصرع کے ساتھ ربط قائم ہو جائے

کوئی بنے جو تیرا اپنا اسے بنا لو
میری یہی ہے رائے میری دعا یہی ہے
-------------پہلے مصرع میں شتر گربہ دور نہیں کیا گیا۔ تیرا کے ساتھ 'لے' آنا چاہیے
اور یہاں ردیف بے معنی محسوس ہو رہی ہے
اس شعر کو نکال ہی دیں میرا تو یہ مشورہ ہے

قسمت یہی تھی میری چھوٹا جو ساتھ تیرا
میری نہ یاد آئے میری دعا یہی ہے
---------دوسرا مصرع بیان کے اعتبارسے نامکمل لگ رہا ہے۔ صرف 'میری نہ یاد آئے' سے بات نہیں بن رہی
کسے یاد نہ آئے اس کا بھی ذکر ہونا چاہیے تھا

اب سوچنا نہ میرا اپنا خیال رکھنا
گھر تجھ کو راس آئے میری دعا یہی ہے
------------شتر گربہ تو میرا خیال ہے کہ دور ہو گیا ہے لیکن دوسرے مصرع میں کس کا گھر، کون سا گھر؟ اس کی وضاحت ضروری محسوس ہو رہی ہے

ارشد کی سب دعائیں تیرے ہیں ساتھ ہر دم
خوشیاں ہزار پائے میری دعا یہی ہے
-----------'تیرے ہیً ساتھ ہر دم' الفاظ کی ترتیب اچھی نہیں ہے
تیرے ہی ساتھ ہیں بس
بھی کیا جا سکتا ہے اور دوسرے مصرع میں 'تُو' کی کمی ہے
خوشیاں تو لاکھ پائے.... بھی میرا خیال ہے کہ چل جائے گا
 
Top