کوئی وعدہ ترا وفا نہ ہوا ۔برائے اصلاح

کوئی وعدہ ترا وفا نہ ہوا
پھر بھی کیوں تجھ سے دل خفا نہ ہوا
کیا ضروری ہے داستان کہوں
ہے خلاصہ کہ وہ مرا نہ ہوا
بے دلی سے عبادتیں کرنا
ہم سے یہ کام اے خدا نہ ہوا
بس یہی زندگی قیامت ہے
کیا ہے وہ حشر جو بپا نہ ہوا
واعظو مے بری نہیں اتنی
خلد بھی جبکہ مے سوا نہ ہوا
آخرت میں خدا عذاب نہ دے
کیا ستم ہے جو یاں روا نہ ہوا
بس یہی عشق ہے سوا اس کے
یاں مرض کوئی لا دوا نہ ہوا
بے ضرر زندگی گزاری ہے
ہم سے غیروں کا بھی برا نہ ہوا
ایک افسوس ہے جو باقی ہے
وہ درِ دل جو ہم پہ وا نہ ہوا
ہم نے کئی بار ان سے باتیں کیں
عرض لیکن وہ مدعا نہ ہوا
بات جب چل پڑی محبت کی
اٹھ کے محفل سے وہ روانہ ہوا
ہم نے غالبؔ کو بار بار پڑھا
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ہو گئی شانؔ عمر قید تجھے
جو پھسا زلف میں رہا نہ ہوا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہے وفا اور خفا قوافی میں
خلد بھی جبکہ مے سوا نہ ہوا
... عجز بیان کا شکار ہے
ہم نے کئی بار ان سے باتیں کیں
عرض لیکن وہ مدعا نہ ہوا
کئی محض دو حرفی تقطیع ہو رہا ہے ۔ اسے یوں کر دیں
بارہا ہم نے ان....
یا
کتنی ہی بار....
جو پھسا زلف میں رہا نہ ہوا
... اگر پھنسا کا نون بھول گئے ہیں تو درست ہے ورنہ یہ لفظ میں نہیں جانتا
 
Top