کوئی گرہ کشا نہیں

عباد اللہ

محفلین
نغمۂ حزن کے سوا
تارِ نفس پہ کچھ نہیں
گوشۂ فکر میں ہمیں
جائے اماں نہیں ملی
سجدہ ء روزِ اولیں
ہیچ ہے اس کی داستاں
ہیچ ہیں تیرے خال و خد
گلشنِ ہست ہے عبث
موجۂ بادِ صبح سے
سرو و سمن سبک ہوئے
اب کے بہار میں یہاں
خود نگری کے نام پر
کھیل غضب کا ہے بپا
کیسی مہیب ہے گھٹا
خلقِ عظیم کا چلن
ہوش و خرد سے ماورا
لمحۂ التفات میں
یہ جو ہیں رنگ و نور سب
غارتِ کن کی زد پہ ہیں
زینۂ ارتقا سے اب
گر کے رہے گا یہ جہاں
منطقۂ حیات میں
گونج رہا ہے قہقہہ
سالک و پیر خوار ہیں
کوئی گرہ کشا نہیں
رقص کناں رہو میاں
 

الف عین

لائبریرین
نغمہ حزن؟ نالہء حزن بہتر ہو گا شاید۔
داستاں کے لئے ’ہیچ‘ کی صفت کا استعمال بھی عجیب لگ رہا ہے۔
کھیل نہیں حشر بپا ہوتا ہے۔
باقی نظم درست ہے۔
 
Top