کوئی ہمدرد نہیں، کوئی بھی دم ساز نہیں ۔ کشفی لکھنوی

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کوئی ہمدرد نہیں کوئی بھی دم ساز نہیں
اب تو اس بزم میں میری کوئی آواز نہیں

نغمہ کیسا کہ لبوں پر بھی ہے اک مہرِ سکوت
دل کی دھڑکن کے سوا اب کوئی آواز نہیں

اور ہی ہوتی ہے اک سازِ شکستہ کی صدا
سوزِ غم جس میں نہ ہو دل کی وہ آواز نہیں

محوِ پرواز ہے اس اوج پہ بھی میرا خیال
جس بلندی پہ فرشتوں کی تگ و تاز نہیں

خار بن جانا ہے ہر پھول مرے حصے کا
باغباں یہ مری قسمت کا تو اعجاز نہیں

جب سے بدلا ہے ترا طرزِ ستم اے ظالم
دلِ بسمل کے تڑپنے کا وہ انداز نہیں

کروٹیں لیتے ہیں نغماتِ محبت اس میں
دل کی آواز سے بہتر کوئی آواز نہیں

پھر گئی ملنے سے پہلے وہ نظر اے کشفیؔ
یہ وہ انجام ہے جس کا کوئی آغاز نہیں​
 
Top