La Alma
لائبریرین
Quantam Leap
آج پھر اپنا ایک عکس نظر بچا کر وقت کے کسی روزن سے نکل بھاگا تھا. دشتِ تنہائی میں جو آئینہ در آئینہ کا کھیل کھیلا تو تا حدِ نگاہ اپنے ہی وجود کی انجمن دِکھی. دور تلک ان گنت عکس تھے جو مجھ سے ایک فرضی فاصلے کی مسافت پر کھڑے تھے. یہ منظر ایسی سراب کہانی کا حصّہ تھا جہاں پر مادی حیات سے بیزار یہ ہزاروں روپ, کتنی ہی متوازی دنیاؤں کی چوکھٹ پر کھڑے تھے . موجِ خواہش کی صورت زمان و مکاں کے ساگر سے نکل کر نئے کنارے چھونے کو بیتاب تھے. راہِ فرار پانے والے عکس کا تعاقب کرتے جو آنکھ کا زاویہ بدلا تو حقیقت ہی بدل گئی. مادہ بے چین ہو کر کب لہر ہوا اور اس لہر نے دور کسی اور جہاں میں سرایت کر کے کب ایک الگ روپ دھارا, پتا ہی نہیں چلا. اب آسمان شاید فرش ہو گیا تھا, نرم نرم ستاروں کی کہکشاں پر پاؤں پڑتے ہی رفعتیں خود بخود قدموں سے آ کر لپٹ گئی تھیں. پرانے زخموں کو سہلاتی چاندنی تھی ، نہ کوئی دکھ رہا تھا نہ آزار، حقیقت خواب کے پیچھے جا چھپی تھی. خیال ذہن کا قفل توڑ کر مجسم ہو کر چلنے لگے تھے. زادِ سفر سے منزل نکل آئی تھی. انگلیوں نے جب قرطاس چھوا تو آرزوؤں کے خاکے خود بخود رنگین ہونے لگے . صحرائے دل نے جیسے سمندر پی لیا تھا، نہ کوئی پیاس تھی نہ کوئی تشنگی . ارد گرد کے سبھی چہرے کتاب صورت تھے جن پر سب کچھ عبارت تھا. کوئی جذبہ اظہار کا محتاج نہ رہا تھا. احساس خود محوِ گفتگو ہونے لگا، لفظ پذیرائی پانے لگے. فنا کا کوئی خوف دامن گیر تھا نہ بقا کی حرص. صدیاں ایک ساعت میں مجتمع ہو گئی تھیں. ہر ادھورے پن نے تکمیل اوڑھ لی تھی.
میرے ہاتھ میں چاند تھا، اور اس پر لکھی ہوئی وہ نظم، سماعتوں سے ٹکراتی مدھر دھن تھی اور لحظہ لحظہ قریب آتا محبت کا کارواں. اچانک منظر بدل گیا؛ سراب کہانی لپیٹ دی گئی تھی. سارے عکس سمٹ کر غائب ہو گئے. پھر وہی دشت تھا، وہی وحشت تھی، اور وہی تنہائی. ہُوا کچھ بھی نہیں تھا بس ذرا آئینہ سرک گیا تھا.