جاسم محمد
محفلین
کورونا سے پاکستان کا 2500 ارب کا نقصان، ایک کروڑ 85 لاکھ لوگ بیروزگار ہوں گے
شہباز رانا جمع۔ء 3 اپريل 2020
مالی سال کے آخری 4 ماہ میں ملکی درآمدات 30 سے 60 فیصد تک کم رہیں گی، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن۔ فوٹو:فائل
اسلام آباد: وزارت منصوبہ بندی نے کورونا وائرس کی موجودہ وبا کے سبب 3 ماہ میں معیشت کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 2 سے ڈھائی ہزار ارب روپے لگایا ہے جبکہ اس سے ایک کروڑ23 لاکھ سے ایک کروڑ 85 لاکھ تک لوگ بیروزگار ہوجائیں گے۔نقصان کا انحصارکم درجہ ،درمیانے درجہ اور مکمل لاک ڈاؤن کو مدنظر رکھ کر لگایا گیا ہے۔
گزشتہ روز وزارت منصوبہ بندی میں ہونے والے بین الوزارتی اجلاس میں لاک ڈاؤن سے ہونے والے نقصانات کے اعداد و شمار پرغورکیا گیا۔ یہ اعداد و شمار پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اور مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے فراہم کیے گئے ہیں۔
وزارت منصوبہ بندی نے محدود لاک ڈاؤن کی صورت میں نقصان کا تخمینہ ایک ہزار 200 ارب، درمیانے لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک ہزار960 ارب اورمکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ڈھائی ہزارارب ڈالر لگایا ہے۔ نقصانات کا یہ تخمینہ کاروباری نقصانات، ٹیکس ریونیو کے نقصانات،عالمی تجارت کے نقصانات اور بیروزگاری پھیلنے سے ہونے والے نقصانات کو مدنظر رکھ کر لگایا گیا ہے۔
حکومت کے یہ ابتدائی اعداد و شمار سابق حکومت کے دوعہدیداروں حفیظ پاشا اور شاہد کاردارکے اندازوں سے بہت زیادہ ہیں جنہوں نے نقصانات کا تخمینہ 891 ارب سے ایک ہزار 600 ارب تک بتایا تھا۔
ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن ڈاکٹر جہانزیب خان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے ملکی معیشت پرسنگین اثرات ہونگے اور حکومت کے معاشی اعدادوشماربکھر کر رہ جائیں گے۔محدود لاک ڈاؤن کی صورت میں 14 لاکھ لوگ بیروزگار ہوسکتے ہیں جو ملک کی مجموعی ورک فورس کا 2.2 فیصد ہیں۔درمیانے درجے کے لاک ڈاؤن جس میں زیادہ تردکانیں بند اور صرف ضروری اشیاء کی کھلیں گی تو ایک کروڑ23 لاکھ لوگ ملازمتوں سے محروم ہوں گے۔
مکمل لاک ڈاؤن سے حکومت کا اندازہ ہے کہ روزانہ اجرتوں پر کام کرنے والے دوتہائی شہریوں سمیت ایک کروڑ85 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگارمتاثرہوگا۔حفیظ پاشا اور شاہد کاردار نے کرفیوجیسی صورتحال میں ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے عارضی طور پر بیروزگارہونے کا خدشہ ظاہرکیا تھا۔ جہاں تک حکومتی محصولات کا تعلق ہے تو ایف بی آر کیلئے یہ آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ اپنی ناہلی کوکورونا کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔
ڈپٹی چیئرمین پلاننک کمشن ڈاکٹر جہانزیب کا اندازہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں ملکی درآمدات میں 30 سے 60 فیصد تک کمی ہوگی جبکہ مالی سال کے آخری چارمہینوں میں ڈالر کی مد میں برآمدات پر 10 فیصد تک اثر پڑے گا۔
شہباز رانا جمع۔ء 3 اپريل 2020
مالی سال کے آخری 4 ماہ میں ملکی درآمدات 30 سے 60 فیصد تک کم رہیں گی، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن۔ فوٹو:فائل
اسلام آباد: وزارت منصوبہ بندی نے کورونا وائرس کی موجودہ وبا کے سبب 3 ماہ میں معیشت کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 2 سے ڈھائی ہزار ارب روپے لگایا ہے جبکہ اس سے ایک کروڑ23 لاکھ سے ایک کروڑ 85 لاکھ تک لوگ بیروزگار ہوجائیں گے۔نقصان کا انحصارکم درجہ ،درمیانے درجہ اور مکمل لاک ڈاؤن کو مدنظر رکھ کر لگایا گیا ہے۔
گزشتہ روز وزارت منصوبہ بندی میں ہونے والے بین الوزارتی اجلاس میں لاک ڈاؤن سے ہونے والے نقصانات کے اعداد و شمار پرغورکیا گیا۔ یہ اعداد و شمار پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اور مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے فراہم کیے گئے ہیں۔
وزارت منصوبہ بندی نے محدود لاک ڈاؤن کی صورت میں نقصان کا تخمینہ ایک ہزار 200 ارب، درمیانے لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک ہزار960 ارب اورمکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ڈھائی ہزارارب ڈالر لگایا ہے۔ نقصانات کا یہ تخمینہ کاروباری نقصانات، ٹیکس ریونیو کے نقصانات،عالمی تجارت کے نقصانات اور بیروزگاری پھیلنے سے ہونے والے نقصانات کو مدنظر رکھ کر لگایا گیا ہے۔
حکومت کے یہ ابتدائی اعداد و شمار سابق حکومت کے دوعہدیداروں حفیظ پاشا اور شاہد کاردارکے اندازوں سے بہت زیادہ ہیں جنہوں نے نقصانات کا تخمینہ 891 ارب سے ایک ہزار 600 ارب تک بتایا تھا۔
ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن ڈاکٹر جہانزیب خان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے ملکی معیشت پرسنگین اثرات ہونگے اور حکومت کے معاشی اعدادوشماربکھر کر رہ جائیں گے۔محدود لاک ڈاؤن کی صورت میں 14 لاکھ لوگ بیروزگار ہوسکتے ہیں جو ملک کی مجموعی ورک فورس کا 2.2 فیصد ہیں۔درمیانے درجے کے لاک ڈاؤن جس میں زیادہ تردکانیں بند اور صرف ضروری اشیاء کی کھلیں گی تو ایک کروڑ23 لاکھ لوگ ملازمتوں سے محروم ہوں گے۔
مکمل لاک ڈاؤن سے حکومت کا اندازہ ہے کہ روزانہ اجرتوں پر کام کرنے والے دوتہائی شہریوں سمیت ایک کروڑ85 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگارمتاثرہوگا۔حفیظ پاشا اور شاہد کاردار نے کرفیوجیسی صورتحال میں ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے عارضی طور پر بیروزگارہونے کا خدشہ ظاہرکیا تھا۔ جہاں تک حکومتی محصولات کا تعلق ہے تو ایف بی آر کیلئے یہ آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ اپنی ناہلی کوکورونا کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔
ڈپٹی چیئرمین پلاننک کمشن ڈاکٹر جہانزیب کا اندازہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں ملکی درآمدات میں 30 سے 60 فیصد تک کمی ہوگی جبکہ مالی سال کے آخری چارمہینوں میں ڈالر کی مد میں برآمدات پر 10 فیصد تک اثر پڑے گا۔