Wajih Bukhari
محفلین
'ہو نہ جائے کچھ' یہ کیسا خوف ہے چھایا ہوا
اس مسلسل فکر سے ہے ذہن پتھرایا ہوا
گھُل رہی ہے جان میری سوچ کر باتیں کئی
پھر الجھ جاتا ہے کوئی وہم سلجھایا ہوا
مجھ کو ہر 'شاید' کے اندیشے لگے ہیں رات دن
وسوسوں نے ہر طرف ہے جال پھیلایا ہوا
خیر کی امّید تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی
پھر ابھر آتا ہے کوئی خوف دفنایا ہوا
گرچہ میں کچھ خاص کر سکتا نہیں ہوں اس گھڑی
ذہن جانے کیوں ہے تدبیروں میں الجھایا ہوا
بوجھ اتنا بے سبب ڈالا ہوا ہے جان پر
فکر سے ٹلتا کہاں ہے امتحاں آیا ہوا
شاذ ہی کرتا بھروسہ ہوں میں اُس کی ذات پر
میں نے اپنے آپ پر خود ہے ستم ڈھایا ہوا
اے خدا میں کیوں تری رحمت سے اب مایوس ہوں
مجھ پہ پہلے بھی تو تیرے رحم کا سایہ ہوا
کیا ہوا جو اب کہیں سایہ نظر آتا نہیں
پھر گل و گلزار ہو گا شہر صحرایا ہوا
-۔-- -۔-- -۔-- -۔-
اس مسلسل فکر سے ہے ذہن پتھرایا ہوا
گھُل رہی ہے جان میری سوچ کر باتیں کئی
پھر الجھ جاتا ہے کوئی وہم سلجھایا ہوا
مجھ کو ہر 'شاید' کے اندیشے لگے ہیں رات دن
وسوسوں نے ہر طرف ہے جال پھیلایا ہوا
خیر کی امّید تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی
پھر ابھر آتا ہے کوئی خوف دفنایا ہوا
گرچہ میں کچھ خاص کر سکتا نہیں ہوں اس گھڑی
ذہن جانے کیوں ہے تدبیروں میں الجھایا ہوا
بوجھ اتنا بے سبب ڈالا ہوا ہے جان پر
فکر سے ٹلتا کہاں ہے امتحاں آیا ہوا
شاذ ہی کرتا بھروسہ ہوں میں اُس کی ذات پر
میں نے اپنے آپ پر خود ہے ستم ڈھایا ہوا
اے خدا میں کیوں تری رحمت سے اب مایوس ہوں
مجھ پہ پہلے بھی تو تیرے رحم کا سایہ ہوا
کیا ہوا جو اب کہیں سایہ نظر آتا نہیں
پھر گل و گلزار ہو گا شہر صحرایا ہوا
-۔-- -۔-- -۔-- -۔-
آخری تدوین: