سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر کے مطابق چین میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد صنعتیں اور سفری سہولیات بند ہونے سے ملک میں فضائی آلودگی ڈرامائی طور پر کم ہو گئی۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی جزوری طور پر کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی کوششوں کے سلسلے میں معاشی سرگرمیوں کے تعطل سے وقوع پذیر ہو ئی۔
ناسا کے جاری کردہ نقشوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قرنطینہ کے بعد کیسے گاڑیوں، بجلی گھروں اور کارخانوں سے خارج ہونے والی نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں پہلے کے مقابلے میں واضح کمی واقع ہوئی۔
اس سے قبل سائنس دان مشاہدہ کر چکے ہیں کہ فروری کے وسط تک کرونا وائرس کی وبا سامنے آنے کے بعد چین میں نقصان دہ گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں ایک چوتھائی کمی ہو گئی تھی۔
کارخانے بند کرنے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس کا اخراج کرنے والے ملک چین میں حیاتیاتی ایندھن کے استعمال میں بھی بڑی کمی ہوئی جو کہ موسمیاتی بحران کی ایک اہم وجہ ہے۔
2019 اور 2020 میں نئے چینی سال پر فضائی آلودگی کا تقابلی جائزہ (ناسا)
چین میں کرونا وائرس سے تقریباً 80 ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں جو کہ کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ چین میں کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی تقریباً2900 ہو چکی ہے۔
ناسا کے نقشوں میں آلودگی کی سطح کا رواں سال کے پہلے تین ہفتوں اور 10 سے 25 فروری کے ہفتوں کے درمیان تقابل کیا گیا۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آلودگی میں کمی پہلے ووہان کے قریب واقع ہونا ظاہر ہوئی۔ کرونا وائرس ووہان سے پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر کے کوالٹی ری سرچر فی لیو کہتی ہیں ’یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے کسی علاقے میں کسی خاص واقعے کے بعد آلودگی کی مقدار میں اس حد تک ڈرامائی کمی دیکھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ 2008 کے مالی بحران کے دوران انہوں نے نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی مقداد میں کمی دیکھی تھی لیکن وہ مرحلہ وار تھی۔