کورٹ مارشل!

کورٹ مارشل!

کیس یہ ہے کہ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والا ادنیٰ درجے کا فوجی رام چندرا دو فوجی افسروں کو گولی ماردیتا ہے۔ گولی کی آواز سننے کے فوراً بعد دوسرے فوجی دوڑے چلے آتے ہیں اور کیپٹن کپور کو بچا لیتے ہیں۔ اس بات پر کورٹ مارشل کی کاروائی شروع ہوجاتی ہے تاکہ رامچندر کو سخت ترین سزا دی جاسکے۔ رامچندر چاہتا ہے کہ اسے سزا دی جائے، وہ جرح سے بچنا چاہتا ہے اور بتاتا ہے کہ دونوں افسر موٹر سائیکل پر اس کے سامنے سے گزرے تو اس نے انھیں گولی مار دی۔ یہ اس کا جرم ہے، اسے سزا دی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہاں کاروائی ختم ہوجانی چاہیے، لیکن کیپٹن رائے اس کاروائی کو آگے بڑھاتا ہے اور گواہان اور کیپٹن کپور سے سوال جواب کا سلسلسہ شروع کرتاہے۔
کاروائی کے دوران ایک ایک کرکے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جن سے رامچندر سے ہمدردی پیدا ہونے لگتی ہے۔ کیپٹن کپور جو بہترین اتھلیٹ تھا، ایک دوڑ میں رامچندر سے ہار جاتا ہے۔ افسران اس کا نام آگے بھیجتے ہیں تاکہ اس نیشنل اور انٹرنینشل مقابلوں میں کھلایا جائے لیکن یہ بات اعلیٰ ذات اور رینک کے کپور کو ہضم نہیں ہوتی۔ وہ اس کی ڈیوٹی اپنے گھر لگوادیتا ہے۔ بات بات پر لعن طن کرتا ہے، چوڑا چمار کہہ کر پکارتا ہے اور بچوں کی پوٹی تک اٹھانے اور صاف کرنے کا کہتا ہے۔ رامچندر سب کچھ برداشت کرتا ہے اور صوبیدار سے کہہ کر اپنی ڈیوٹی وہاں سے تبدیل کروالیتا ہے۔ اس دوران میں کپور نشے کی حالت میں بیوی کو بھی مار پیٹ رکتا ہے اور رامچندر اسے بھی بچاتا ہے۔
رام چندر کی ڈیوٹی تو تبدیل ہوجاتی ہے لیکن وہ ایک ہی یونٹ ہونے کے ناطے کبھی سو بار سیلیوٹ کی سزا دیتا ہے اور کبھی دیگر طریقوں سے تنگ کرتا ہے جیسے سخت بخار میں بھی چھٹی نہ دینا وغیرہ وغیرہ۔ رامچندر کی گارڈ کی ڈیوٹی پر بھی وہ آکر اپنے افسر دوست کے ساتھ اسے برا بھلا کہتا ہے اور ماں کی گندی گالیاں دیتا ہے، جس پر رامچندر بندوق اٹھالیتا ہے اور گولی چلا دیتا ہے۔
اس سے قبل کہ کوئی فیصلہ سنایا جائے، کیپٹن کپور، فوجی عدالت میں کھڑے سیکورٹی گارڈ کے مسلسل گھورنے کی وجہ سے اس سے پہلے الجھتا ہے اور دوسری بار ہاتھا پائی کرتا ہے جس سے بندوق چلنے سے مارا جاتا ہے۔ فلم کو یہ کہہ کر ختم کردیا گیا ہے کہ کیپٹن کپور کے لیے یہی قدرت کا انتقام تھا۔
یہ فلم دیکھتے ہوئے مجھے ریسیکو 1122 کے وہ تمام رامچندر یاد آئے جن کے ساتھ میں نے ٹریننگ سے ڈیوٹی تک دس سال گزارے۔ وہ کیپٹن کپور بھی یاد آیا جو بات سے قبل کسی بھی رامچندر کو بیلٹ سے پکڑ کر پوچھتا تھا کہ بتا تیرا عہدہ کیا ہے اور۔۔۔ اور ۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ برطانوی پارلیمنٹیرین حنظلہ ملک کا وہ دورہ جس میں میں نے اسے انگلش میں کمیونٹی ٹریننگ کی پریزنٹیشن دی تھی اور سارے محکمے کے لیے شاباش اکٹھی کی تھی لیکن دفتر میں اگلے کئی ماہ "سنا انگریز" ایسے نفرت انگیز جملے سہتے گزرے تھے۔۔۔اور۔۔۔اور۔۔۔اور۔۔۔شکر ہے مجھے ایک کیپٹن رائے وہاں کسی حد تک میسر رہا تھا۔
ہمارے افسانوی ادب اور بالخصوص فلموں کی کہانیوں کا اختتام اکثر قدرت کے انتقام یا ہیرو ہیروئن کے ملاپ ایسے مناظر پر ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کمرشل مجبوری ہے۔۔۔سوال یہ ہے کہ قدرت کے اس انتقام کا کب تک انتظار کیا جائے اور اس سے قبل عزتِ نفس کے پل پل قتل کے تدارک کی کیا سبیل کی جائے، ماسوائے اس کے کہ اپنی تعلیم اور ہنر کو بڑھاتے ہوئے حبس زدہ ماحول سے نکلنے کا انتظام کیا جائے۔۔۔یا پھر کوئی اور قابلِ عزت ذریعہ معاش تلاش کیا جائے۔۔۔اور اگر کچھ اور بالکل بھی ممکن نہ ہوتو خود کیپٹن کپور بننے کے بعد کم از کم کسی رامچندر کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کیا جائے۔
محمد خرم یاسین
Dr.Muhammad Khurram Yasin@

May be an image of 2 people and text
 
آخری تدوین:
بے شک و شبہ ایک حساس موضوع پر بنی ہوئی فلم ہے ۔ وردی پہن لینا دور سے بڑا خاص لگتا ہوگا ۔ لیکن اس وردی کے ساتھ ساتھ کتنے جنگلی جانوروں سے پالا پڑتا ہے اور کہاں کہاں اسے ہاتھ پاؤں باندھ کر بھیڑیوں کے آگے ڈالا جاتا ہے یہ ایک وردی والے سے بہتر شاید کوئی نہیں جانتاہوگا۔ (خداخوفی ، مزید تذلیل ، معاشرے کی ریجیکشن اور معاشی ضروریات سے بندھے نہ ہوں تو) بس چلے تو ہر وردی والے ادارے میں ایک رام چندر پیدا ہو
 
بے شک و شبہ ایک حساس موضوع پر بنی ہوئی فلم ہے ۔ وردی پہن لینا دور سے بڑا خاص لگتا ہوگا ۔ لیکن اس وردی کے ساتھ ساتھ کتنے جنگلی جانوروں سے پالا پڑتا ہے اور کہاں کہاں اسے ہاتھ پاؤں باندھ کر بھیڑیوں کے آگے ڈالا جاتا ہے یہ ایک وردی والے سے بہتر شاید کوئی نہیں جانتاہوگا۔ (خداخوفی ، مزید تذلیل ، معاشرے کی ریجیکشن اور معاشی ضروریات سے بندھے نہ ہوں تو) بس چلے تو ہر وردی والے ادارے میں ایک رام چندر پیدا ہو
فیصل بھائی بالکل درست فرمارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آ پ کو شاد و آباد رکھے۔ آمین
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے افسانوی ادب اور بالخصوص فلموں کی کہانیوں کا اختتام اکثر قدرت کے انتقام یا ہیرو ہیروئن کے ملاپ ایسے مناظر پر ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کمرشل مجبوری ہے۔
درست! اگر ایسا نہ کریں تو ناظر اپنے آپ کو بہت ہی زیادہ بے یارو مددگار پاتا ہے۔ جیسا کہ عموماً آرٹ موویز دیکھنے والوں کے ساتھ گزرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ قدرت کے اس انتقام کا کب تک انتظار کیا جائے اور اس سے قبل عزتِ نفس کے پل پل قتل کے تدارک کی کیا سبیل کی جائے، ماسوائے اس کے کہ اپنی تعلیم اور ہنر کو بڑھاتے ہوئے حبس زدہ ماحول سے نکلنے کا انتظام کیا جائے۔۔۔یا پھر کوئی اور قابلِ عزت ذریعہ معاش تلاش کیا جائے۔۔۔اور اگر کچھ اور بالکل بھی ممکن نہ ہوتو خود کیپٹن کپور بننے کے بعد کم از کم کسی رامچندر کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کیا جائے۔
جی۔ کم از کم یہ تو ہونا ہی چاہیے۔
 
درست! اگر ایسا نہ کریں تو ناظر اپنے آپ کو بہت ہی زیادہ بے یارو مددگار پاتا ہے۔ جیسا کہ عموماً آرٹ موویز دیکھنے والوں کے ساتھ گزرتی ہے۔

جی۔ کم از کم یہ تو ہونا ہی چاہیے۔
بہت شکریہ احمد بھائی! جزاک اللہ خیرا۔ ممونم
 
Top