حسان خان
لائبریرین
السلام علیکم دوستو!
برِ صغیر کی طرح بلقان میں اسلام کی اشاعت میں بھی سب سے بڑا کردار صوفیوں نے ادا کیا تھا۔ صوفی بزرگ جس خطے میں بھی جاتے تھے وہاں کی علاقائی رسوم و روایات اور علاقائی زبان اپنا کر اور عام لوگوں میں پوری طرح گھل مل کر دینی تعلیمات کی تبلیغ کیا کرتے تھے جو عام لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتا تھا۔ بلقان میں تین صوفی سلسلے یعنی قادری، رفاعی اور بکتاشی صدیوں سے فعال رہے ہیں اور ان ہی کی بدولت ہی یہاں کی کافی آبادی مسلمان ہے۔ خاص طور پر البانوی معاشرے میں تو تصوف کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ شروع کے دو سلسلے سنی اساس جب کہ آخر الذکر صوفی سلسلہ شیعہ اساس ہے۔ بعض محققین کے مطابق یہ صوفی تعلیمات کا ہی اثر ہے کہ بلقان کے مسلمان فطرتاً روادار اور جنونیت سے یکسر دور ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمان بھی اگر شدت پسندی اور فرقہ واریت سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو صوفی بزرگوں کی تعلیمات کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔
آج میں کوسووو، مقدونیہ اور بوسنیا میں پائے جانے والے رفاعی درویشوں کا تعارف دینا چاہتا ہوں۔ یہ صوفی سلسلہ بارہویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ احمد رفاعی کے نام سے منسوب ہے۔، جو کہ عراق میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتداء میں اس سلسلے کا مرکز شام تھا، لیکن پندرہویں صدی عیسوی تک آتے آتے اس کا مرکز البانوی نشین علاقے بن گئے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے رفاعی سلسلے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ویسے تو اس صوفی سلسلے کی اساس سنی تعلیمات پر ہے، لیکن اس سلسلے نے شیعہ علوی اور بکتاشی سلسلے سے کافی اثرات قبول کیے ہیں۔ خاص طور پر حضرت علی اور اہلِ بیت سے عقیدت پر اس سلسلے میں کافی زور دیا جاتا ہے۔ ہر سال یہ اپنے تکیوں میں نوروز کا دن عقیدت سے مناتے ہیں جو ان کے اعتقادات کے مطابق حضرت علی کی پیدائش یا شاید امامت کا دن ہے۔ اُس کے علاوہ یہ جہری ذکر پر بھی بہت زور دیتے ہیں۔ نیز، ان میں قادری سلسلے کے اثرات بھی شامل ہیں۔ (ضمناً عرض ہے کہ میرے دادا بھی قادری سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔)
ایک اور چیز، جس کی وجہ سے یہ خاص طور پر مشہور ہیں، یہ ہے کہ بہت سے رفاعی صوفی درویش عبادتی مراسم کے دوران اپنے گالوں میں سیخیں پیوست کرتے ہیں۔
اسلامی دنیا کا نسلی، قومی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی تنوع میری نظر میں تو انتہائی خوبصورت اور حیران کُن ہے۔ پتا نہیں کیوں ہم اس تنوع کو عزیز رکھنے کے بجائے اس سے خائف رہتے ہیں۔
کوسووو کے رفاعیوں پر یہ مضمون بہت معلوماتی ہے:
Dervishes Keep Whirling in Western Kosovo
اسے بھی ایک نظر دیکھیے گا:
Rifa'i
مندرجہ ذیل تصاویر کوسووو کے ثقافتی دل پریزرن کے ایک رفاعی تکیے کی ہیں جہاں صوفی درویش ذکر اور دیگر عبادتی مراسم ادا کرتے ہیں۔
پریزرن میں تعینات بین الاقوامی فوج کا جرمن باشندہ اور اُس کی بیوی بھی تقریب میں شامل ہے۔
ایک صحافی شیخ سے مصاحبہ (انٹرویو) کر رہا ہے۔
سب کو اس بات سے اختلاف کا پورا حق حاصل ہے، لیکن مجھے تو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ بلقان کی مسلم خواتین سر سے پیر تک سیاہ لبادے میں بند نہیں ہوتیں۔
اس تکیے کے پیر شیخ ادری حُسین
"لی خمسۃ اطفی بہا حر الوباء الحاطمہ
المصطفی والمرتضیٰ وابناہما والفاطمہ"
جاری ہے۔۔۔۔۔
برِ صغیر کی طرح بلقان میں اسلام کی اشاعت میں بھی سب سے بڑا کردار صوفیوں نے ادا کیا تھا۔ صوفی بزرگ جس خطے میں بھی جاتے تھے وہاں کی علاقائی رسوم و روایات اور علاقائی زبان اپنا کر اور عام لوگوں میں پوری طرح گھل مل کر دینی تعلیمات کی تبلیغ کیا کرتے تھے جو عام لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتا تھا۔ بلقان میں تین صوفی سلسلے یعنی قادری، رفاعی اور بکتاشی صدیوں سے فعال رہے ہیں اور ان ہی کی بدولت ہی یہاں کی کافی آبادی مسلمان ہے۔ خاص طور پر البانوی معاشرے میں تو تصوف کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ شروع کے دو سلسلے سنی اساس جب کہ آخر الذکر صوفی سلسلہ شیعہ اساس ہے۔ بعض محققین کے مطابق یہ صوفی تعلیمات کا ہی اثر ہے کہ بلقان کے مسلمان فطرتاً روادار اور جنونیت سے یکسر دور ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمان بھی اگر شدت پسندی اور فرقہ واریت سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو صوفی بزرگوں کی تعلیمات کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔
آج میں کوسووو، مقدونیہ اور بوسنیا میں پائے جانے والے رفاعی درویشوں کا تعارف دینا چاہتا ہوں۔ یہ صوفی سلسلہ بارہویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ احمد رفاعی کے نام سے منسوب ہے۔، جو کہ عراق میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتداء میں اس سلسلے کا مرکز شام تھا، لیکن پندرہویں صدی عیسوی تک آتے آتے اس کا مرکز البانوی نشین علاقے بن گئے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے رفاعی سلسلے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ویسے تو اس صوفی سلسلے کی اساس سنی تعلیمات پر ہے، لیکن اس سلسلے نے شیعہ علوی اور بکتاشی سلسلے سے کافی اثرات قبول کیے ہیں۔ خاص طور پر حضرت علی اور اہلِ بیت سے عقیدت پر اس سلسلے میں کافی زور دیا جاتا ہے۔ ہر سال یہ اپنے تکیوں میں نوروز کا دن عقیدت سے مناتے ہیں جو ان کے اعتقادات کے مطابق حضرت علی کی پیدائش یا شاید امامت کا دن ہے۔ اُس کے علاوہ یہ جہری ذکر پر بھی بہت زور دیتے ہیں۔ نیز، ان میں قادری سلسلے کے اثرات بھی شامل ہیں۔ (ضمناً عرض ہے کہ میرے دادا بھی قادری سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔)
ایک اور چیز، جس کی وجہ سے یہ خاص طور پر مشہور ہیں، یہ ہے کہ بہت سے رفاعی صوفی درویش عبادتی مراسم کے دوران اپنے گالوں میں سیخیں پیوست کرتے ہیں۔
اسلامی دنیا کا نسلی، قومی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی تنوع میری نظر میں تو انتہائی خوبصورت اور حیران کُن ہے۔ پتا نہیں کیوں ہم اس تنوع کو عزیز رکھنے کے بجائے اس سے خائف رہتے ہیں۔
کوسووو کے رفاعیوں پر یہ مضمون بہت معلوماتی ہے:
Dervishes Keep Whirling in Western Kosovo
اسے بھی ایک نظر دیکھیے گا:
Rifa'i
مندرجہ ذیل تصاویر کوسووو کے ثقافتی دل پریزرن کے ایک رفاعی تکیے کی ہیں جہاں صوفی درویش ذکر اور دیگر عبادتی مراسم ادا کرتے ہیں۔
پریزرن میں تعینات بین الاقوامی فوج کا جرمن باشندہ اور اُس کی بیوی بھی تقریب میں شامل ہے۔
ایک صحافی شیخ سے مصاحبہ (انٹرویو) کر رہا ہے۔
سب کو اس بات سے اختلاف کا پورا حق حاصل ہے، لیکن مجھے تو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ بلقان کی مسلم خواتین سر سے پیر تک سیاہ لبادے میں بند نہیں ہوتیں۔
اس تکیے کے پیر شیخ ادری حُسین
"لی خمسۃ اطفی بہا حر الوباء الحاطمہ
المصطفی والمرتضیٰ وابناہما والفاطمہ"
جاری ہے۔۔۔۔۔
آخری تدوین: