عزیزامین بھائی اور اسی لیئے آپ کو پورے اخلاص سے سمجھانا چاہتا ہوں کیوں کہ میں آپ کو عزیز سمجھتا ہوں
وضاحت کے لیے اسی آیت کریمہ کے ترجمہ کی روشنی میں اب نظم کو دیکھیے ،،
مَیں ازل سے اجل کے تعاقُب میں ہُوں
یعنی اپنی ہستی کی حقیقت (وجود خاکی مراد ہے)
جلتی بُجھتی ہُوئی دُودھیا روشنی
ایمان کی قوت میں تغیر کا اشارہ ہے
آگے چلتی ہُوئی اِک جگہ رُک گئی
آنکھ دُھندلا گئی
سگنل کی کمزوری شروع ہو گئی
(یعنی وہ ربط جو اچھے کاموں اور پانچ ستونوں سے پروان چڑھتا ہے، ان ستونوں کی خستگی سے دھندلا رہا ہے )
سانس کا شور سینے میں مدّھم ہُوا
( سائنس اسے ڈپریشن کا نام دیتی ہے اور اس کا واحد حل ذاتِ ربانی ہے!! )
رابطہ خود سے بھی ' تجھ سے بھی کٹ گیا
مسئَلہ کیا ہُوا ؟
کیا مَیں تیری خُدائی کی حدّ میں نہیں ؟
اُف خُدایا ! یہ مَیں کس جگہ آ گیا؟
اِس جگہ تیرے سِگنل نہیں آ رہے
فکر لاحق ہوئی کہ اب دعا کیوں نہیں قبول ہوتی ،
اور وہی گھسے پٹے شکوے کیا میں تیری مخلوق نہیں!! وغیرہ وغیرہ !!
اس کی بہترین مثل شکوہ ہے ( علامہ اقبال کی نظم )
البتہ جواب شکوہ یہاں بیان نہیں کیا شاعر نے!!
( شائد ہمارے لیئے یہ سوال باقی چھوڑ دیا )
جزاک اللہ !!