کونسا پاکستان؟

پاکستان کی عوام آزادی کی ساٹھوں‌سالگرہ منارہی ہے۔ مبارک۔
مگر کونسا پاکستان۔ 14 اگست 1947 کو تو مملکت خداداد پاکستان تشکیل پایاتھا جس میں‌اکثریتی بنگالی عوام بھی شامل تھی۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ یا یہ 16 دسمبر 1971 میں‌تشکیل دیا گیا تھا؟ کیا موجودہ پاکستان کی ائیڈیالوجی وہی ہے جو 1947 میں تھی یا مختلف؟
کیا واقعی یہ پاکستان ہے؟ یہ واقعی عوام ازاد ہیں؟
 

فاتح

لائبریرین
14 اگست 1947 کو تو مملکت خداداد پاکستان تشکیل پایاتھا جس میں‌اکثریتی بنگالی عوام بھی شامل تھی۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ یا یہ 16 دسمبر 1971 میں‌تشکیل دیا گیا تھا؟

ہمت علی صاحب! میں ایک کم فہم اور مطلقاً جاہل شخص ہوں اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی گہری بات کا مقصد نہیں سمجھ آیا۔
کچھ وضاحت فرمائیے گا جناب۔
 

AHsadiqi

محفلین
پاکستان کی عوام آزادی کی ساٹھوں‌سالگرہ منارہی ہے۔ مبارک۔
مگر کونسا پاکستان۔ 14 اگست 1947 کو تو مملکت خداداد پاکستان تشکیل پایاتھا جس میں‌اکثریتی بنگالی عوام بھی شامل تھی۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ یا یہ 16 دسمبر 1971 میں‌تشکیل دیا گیا تھا؟ کیا موجودہ پاکستان کی ائیڈیالوجی وہی ہے جو 1947 میں تھی یا مختلف؟
کیا واقعی یہ پاکستان ہے؟ یہ واقعی عوام ازاد ہیں؟
محترم ہمت علي صاحب پاکستاني اپني آزادي کي ساٹھويں سالگرہ منا رہے ہيں جو بھي خود کو پاکستاني کہتا ہے پاکستان کے ساتھ مخلص ہے پاکستان 1947 کو وجود ميں آيا تھا يہ اور بات کہ ہماري ناقدري اور ہماري ذاتي سياست نے ہمارے ملک کو اس وقت تباھي کے گڑھے پر لا کھڑا کيا ہے ليکن اب بھي دير نہيں ہوئي اگر ہم ذاتي رنجشيں بھلا کر صرف مملکت خداداد پاکستان اور اسلام کے ساتھ مخلص ہو جائيں تو کوئي وجہ نہيں کہ ہم ان منافق سياست دانوں سے جان چھڑا سکتے ہيں صرف ايک حقيقي مسلمان جو صرف اپنے دل ميں خدا کا خوف رکھتا ہو وہي حق رکھتا ہے پاکستان کي خدمت کا اگر کوئي بات ناگوار گزري ہو تو معافي چاہوں گا
 

ساجداقبال

محفلین
1100243278-1.gif


1100243203-1.jpg

1100243203-2.gif
”جشن“ آزادی مبارک
 
محترم ہمت علي صاحب پاکستاني اپني آزادي کي ساٹھويں سالگرہ منا رہے ہيں جو بھي خود کو پاکستاني کہتا ہے پاکستان کے ساتھ مخلص ہے پاکستان 1947 کو وجود ميں آيا تھا يہ اور بات کہ ہماري ناقدري اور ہماري ذاتي سياست نے ہمارے ملک کو اس وقت تباھي کے گڑھے پر لا کھڑا کيا ہے ليکن اب بھي دير نہيں ہوئي اگر ہم ذاتي رنجشيں بھلا کر صرف مملکت خداداد پاکستان اور اسلام کے ساتھ مخلص ہو جائيں تو کوئي وجہ نہيں کہ ہم ان منافق سياست دانوں سے جان چھڑا سکتے ہيں صرف ايک حقيقي مسلمان جو صرف اپنے دل ميں خدا کا خوف رکھتا ہو وہي حق رکھتا ہے پاکستان کي خدمت کا اگر کوئي بات ناگوار گزري ہو تو معافي چاہوں گا

معافی کیسی۔ میں‌تو اپ سے بلکل متفق ہوں۔
ہم سب کو حقائق کا قائل ہونا چاہیے ورنہ قومیں بعضے اوقات خود فریبی میں‌ہی مرجاتی ہیں۔
 

زینب

محفلین
انڈیا ےآذاد ھو کے امریکہ کے پاس غلام ھو گے ھیں۔۔۔۔

اُپر ایک شعر بھائ نے کہا کچھ یوں ھونا چاھیے کہ

تیراپاکستان ھے نہ میرا پاکستان ھے

یہ اُس کا پاکستان ھے جو صدرِ پاکستان ھے
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان کی عوام آزادی کی ساٹھوں‌سالگرہ منارہی ہے۔ مبارک۔
مگر کونسا پاکستان۔ 14 اگست 1947 کو تو مملکت خداداد پاکستان تشکیل پایاتھا جس میں‌اکثریتی بنگالی عوام بھی شامل تھی۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ یا یہ 16 دسمبر 1971 میں‌تشکیل دیا گیا تھا؟ کیا موجودہ پاکستان کی ائیڈیالوجی وہی ہے جو 1947 میں تھی یا مختلف؟
کیا واقعی یہ پاکستان ہے؟ یہ واقعی عوام ازاد ہیں؟

ہمت علی بھائی صاحب، وہی پاکستان جس کے "اجازت نامے" کہ وجہ سے آپ "آزادی" کے ساتھ کوریا میں بحیثیت "پاکستانی" موجود ہیں۔

رہی بنگال کی علیحدگی، تو یہ بات تو بھائی آپ جانتے ہی ہونگے کہ نظریہ یا سسٹم کے "اطلاق" یا نفاذ کی ناکامی اس نظریے یا سسٹم کی ناکامی نہیں ہوتی۔ معذرت کے ساتھ، اگر اسلام پچھلے سینکڑوں سالوں میں اپنی حقیقی روح کے ساتھ نافذ نہیں ہے تو کیا یہ اسلام کی ناکامی ہے؟ یقیناً نہیں تو اسطرح کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں دنیا میں اور دو قومی نظریہ انہی میں سے ایک ہے۔

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

(عدم)

۔
 
ہمت علی بھائی صاحب، وہی پاکستان جس کے "اجازت نامے" کہ وجہ سے آپ "آزادی" کے ساتھ کوریا میں بحیثیت "پاکستانی" موجود ہیں۔

رہی بنگال کی علیحدگی، تو یہ بات تو بھائی آپ جانتے ہی ہونگے کہ نظریہ یا سسٹم کے "اطلاق" یا نفاذ کی ناکامی اس نظریے یا سسٹم کی ناکامی نہیں ہوتی۔ معذرت کے ساتھ، اگر اسلام پچھلے سینکڑوں سالوں میں اپنی حقیقی روح کے ساتھ نافذ نہیں ہے تو کیا یہ اسلام کی ناکامی ہے؟ یقیناً نہیں تو اسطرح کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں دنیا میں اور دو قومی نظریہ انہی میں سے ایک ہے۔

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

(عدم)

۔

وارث بھائی صاحب۔ میں‌اپ سے متفق ہوں۔ جس پاکستان کے پاسپورٹ پر میں‌کوریا میں‌ازادی کے ساتھ مقیم ہوں‌اس کی قدر کرتا ہوں۔ میرے خیال میں‌ یہ پاکستان ذرا سا مختلف ہے اس پاکستان سے جو 1947 میں‌وجود میں‌ایا تھا۔
بنگال کے الگ ہوجانے کو دوقومی نظریہ کی ناکامی نہیں۔ اس سے بلکل انکار نہیں۔ بلکہ میں‌تو دوقومی نظریہ کو پاکستان کی وجہ وجود کے علاوہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دیکھتا ہوں۔ "میرے مطابق" بلکہ بہت سوں کے مطابق اس دنیا میں‌دراصل دو قومیں‌ہی بستی ہیں۔
اپ کی باتوں‌سے اختلاف نہیں۔ مگر ہمیں‌حقائق تو یاد ہی رکھنے چاہیں۔ بنگال جہاں‌مسلم لیگ نے جنم لیا اب اس "مغربی پاکستان" کا حصہ نہیں‌ہے۔ پاکستان کی ائیڈیالوجی درحقیقت وہ نہیں‌ہے جو معصوم لوگوں‌کو بتائی اور پڑھائی جاتی ہے۔ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔
پھر احکام چاہے برطانیہ سے ائیں‌یا امریکہ سے کچھ فرق پڑتا ہے؟
 
انڈیا ےآذاد ھو کے امریکہ کے پاس غلام ھو گے ھیں۔۔۔۔

اُپر ایک شعر بھائ نے کہا کچھ یوں ھونا چاھیے کہ

تیراپاکستان ھے نہ میرا پاکستان ھے

یہ اُس کا پاکستان ھے جو صدرِ پاکستان ھے

تھوڑی مزید تصحیح
"یہ اس کا پاکستان ہے جو افواج پاکستان ہے“
 

ساجد

محفلین
ہمت بھائی ،
بنگالیوں کا پاکستان کے حوالے سے ذکر کرنے سے پہلے ان کی بے چین جبلت کی تاریخ اور کوریا میں اپنے ارد گرد موجود کسی بنگالی کے خیالات سے آگاہی ضرور حاصل کر لیا کریں۔ بہت ساری تاریخی سوالوں کا بن پوچھے ہی جواب مل جائے گا۔
 
ہمت بھائی ،
بنگالیوں کا پاکستان کے حوالے سے ذکر کرنے سے پہلے ان کی بے چین جبلت کی تاریخ اور کوریا میں اپنے ارد گرد موجود کسی بنگالی کے خیالات سے آگاہی ضرور حاصل کر لیا کریں۔ بہت ساری تاریخی سوالوں کا بن پوچھے ہی جواب مل جائے گا۔
ساجد بھائی ۔ بنگلہ دیشیوں‌کے ساتھ روز کا اٹھنا بیٹھنا ہے اور اسی لیے میری یہ رائے بنی ہے۔ اکثریتی بنگلہ دیشی پاکستان سے الگ نہیں‌ہونا چاہتے تھے مگر فوج نے اپنی بالادستی کے لیے انہیں‌مار مار کر الگ کردیا۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی ۔ بنگلہ دیشیوں‌کے ساتھ روز کا اٹھنا بیٹھنا ہے اور اسی لیے میری یہ رائے بنی ہے۔ اکثریتی بنگلہ دیشی پاکستان سے الگ نہیں‌ہونا چاہتے تھے مگر فوج نے اپنی بالادستی کے لیے انہیں‌مار مار کر الگ کردیا۔
ہمت بھیا ،
یعنی کہ آپ بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئے۔ فوج کی غلطیاں اپنی جگہ پر لیکن اگر فوج ان کو کچھ بھی نہ کہتی انہوں نے تب بھی یہی کچھ کرنا تھا۔ آپ سے عرض کیا تھا نا کہ بنگالیوں کی تاریخی بے چین جبلت کا مطالعہ کیجئیے تو بہت سارے سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ نہ تو یہ متحدہ ہندوستان میں چین سے بیٹھتے تھے نہ انگریز دور میں ان کی طبیعت کو سکون ملا نہ ہی یہ پاکستان سے نبھاہ کر سکے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ان کا جو حال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ان کو کبھی کراچی کی سڑکوں سے بنگالی پٹ سن کی بو آتی تھی تو کبھی آرمی ان کو اچھی نہ لگتی تھی۔ ان کا لیڈر بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بنتا تھا اور غداری پر مبنی اپنے ہر اقدام پر پاک آرمی کے ظلم کا واویلا مچا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا۔ فوج کو غلطیاں کرنے پر بنگالیوں نے خود مجبور کیا تھا۔ غداروں کو چُوری نہیں کھلائی جاتی ۔ ان کو اگر مارا تو ان کی حرکتوں کی وجہ سے کہ یہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے اور اس کا ثبوت 1971 کی جنگ میں بہت اچھی طرح سے مل بھی گیا۔ دراصل ان کا کھانا پینا ، لباس ، زبان اور خیالات مغربی پاکستان کے باسیوں کی بجائے کلکتہ والوں سے ملتے تھے اس لئیے انہوں نے وہی کچھ کیا جس کی وجہ سے میر صاحبان معروف ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو کسی نظرئیے کی بجائے زبان کے نام پہ وجود میں آیا۔ ان کو بنگلہ زبان کا تحفظ پاکستان سے علیحدگی میں نظر آتا تھا۔
میرا نائب بنگالی ہے ۔ میں جب تک اس کے ساتھ سخت رویہ رکھوں وہ بندے کا پتر بن کے رہتا ہے جیسے ہی تھوڑا نرم پڑوں تو وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف خبثِ باطن کے اظہار سے بھی نہیں چوکتا۔ حالانکہ اس کا تعلق نواکھلی سے ہے یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں کے باشندوں کو رضا کار یعنی پاکستان نواز کہا جاتا تھا۔ باقی علاقوں کا حال آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
بنگالیوں پر میں کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کے لئیے آج کل اعداد و شمار جمع کر رہا ہوں۔ جیسے ہی کافی مستند معلومات اکٹھی ہو گئیں پھر لکھوں گا۔ پاکستان کے باسیوں کو یہ بات نہ جانے کیوں باور کروائی جاتی ہے کہ بنگالی آج بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی محبت کی جھلک دیکھنی ہو تو ان کا چینل آئی دیکھئیے جو دن رات پاکستان کو گالیاں دیتا ہے اور دسمبر کا مہینہ آنے والا ہے ان دنوں میں اس کی بکواس اور بڑھ جائے گی۔ مزید درجن بھر چینل بھی ہیں جو اس کارِ مکروہ میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ ہر قوم میں کچھ اچھے اور معتدل مزاج رکھنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں لیکن قوموں کے روئیے کو ان کے رہنماؤں ، دانشوروں اور حکومت کی پالیسیوں سے ماپا جاتا ہے اور اس پیمانے سے دیکھا جائے تو بنگالی کل بھی پاکستان سے نفرت کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو خوش فہمیوں اور احساسِ کمتری کی دنیا سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔
 
بنگالی پاکستان سے نہیں‌بلکہ بیمار پنجابی ذھنیت سے نفرت کرتا تھا۔
یہ اپ کی اس نفرت انگیز تحریر سے بھی پتہ چلتا ہے۔ اور میں اس پر احتجاج بھی کرتا ہوں۔
 

ظفری

لائبریرین
اعتراض تو مجھے بھی اس تحریر پر ہے ساجد صاحب ۔۔۔۔ لکھنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں مگر آج کل کے حالات کے پیش ِ نظر خاموشی میں ہی عافیت ہے ، کیونکہ اس سے ایک بڑی بحث کے آغاز ہونے کا اندیشہ ہے ۔ جس طرح یہاں کے ایک ٹولے نے بنگالیوں کے خلاف نفرت پھیلائی اسی طرح وہاں بھی ایک گروہ سرگرم رہا ۔ خیر اس پر بحث پھر کبھی سہی ۔ ویسے میں نے اپنے ٹاپک " نظریہ اور ریاست " میں اس سازش کا سرسری ذکر ایک سیاسی خاکے کے طور پر کیا ہے ۔
 

ساجد

محفلین
بنگالی پاکستان سے نہیں‌بلکہ بیمار پنجابی ذھنیت سے نفرت کرتا تھا۔
یہ اپ کی اس نفرت انگیز تحریر سے بھی پتہ چلتا ہے۔ اور میں اس پر احتجاج بھی کرتا ہوں۔
ہمت بھائی ،
آپ سے یہی توقع تھی۔ اگر آپ پنجابیوں پر نہ برستے تو کوئی نئی بات ہوتی۔
ویسے احتجاج ہی نہ کریں۔ حقائق سامنے لائیں اور اس پر بات کریں۔
آپ کی سابقہ تحاریر گواہ ہیں کہ نفرت تو آپ بھی رکھتے ہیں پنجاب سے۔
گویا کہ دشمن کا دشمن ، دوست والا معاملہ درپیش ہے آپ کے ساتھ۔
اگر میری یہ تحریر نفرت پر مبنی ہے تو معاف کیجئیے گا کہ یہ صرف آپ کا خیال ہے۔ حقیقت کی کڑواہٹ کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
اعتراض تو مجھے بھی اس تحریر پر ہے ساجد صاحب ۔۔۔۔ لکھنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں مگر آج کل کے حالات کے پیش ِ نظر خاموشی میں ہی عافیت ہے ، کیونکہ اس سے ایک بڑی بحث کے آغاز ہونے کا اندیشہ ہے ۔ جس طرح یہاں کے ایک ٹولے نے بنگالیوں کے خلاف نفرت پھیلائی اسی طرح وہاں بھی ایک گروہ سرگرم رہا ۔ خیر اس پر بحث پھر کبھی سہی ۔ ویسے میں نے اپنے ٹاپک " نظریہ اور ریاست " میں اس سازش کا سرسری ذکر ایک سیاسی خاکے کے طور پر کیا ہے ۔
ظفری صاحب ،
کیسے مزاج ہیں؟ آپ کا اعتراض سر آنکھوں پر جناب۔ آپ سے تو ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔اور گلہ بھی یہی ہے کہ آپ کم کم لکھتے ہیں۔ آپ ارشاد فرمائیں ، اور جہاں میں غلط ہوں میری درستی فرمائیں۔
 

ظفری

لائبریرین
الحمداللہ ساجد بھائی ۔ آپ سنائیں ۔ کافی دنوں سے آپ کا فون بھی نہیں آیا ۔ اہل ِ خانہ کیسے ہیں ۔ ؟

ساجد بھائی یہ تو وہ قصہ ہے جس پر ہم 37 سالوں سے بحث کر رہے ہیں ۔ اور اس بحث سے سوائے نفرت اور بدگمانیوں کے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ میں اپنے ہی ٹاپک سے دو اقتباس پیش کرتا ہوں ۔ اس کے تناظر میں دیکھئے کہ بات کہاں سے کہاں اور کیسے پہنچتی ہے ۔

یہ اقتباس اخلاقی اور مذہبی تناظر میں دیکھئے ۔

ایک اور نظر 1971 پر ڈالیں جب بنگال میں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا تھا ۔ اس وقت مولانا ظفر احمد عثمانی نے فتویٰ دیا کہ بنگالی ، مسلمانوں کی شرعی حکومت کے خلاف خروج کر رہے ہیں تو ان کا خون حلال ہوگیا ہے ۔ اور جو بنگالی اس لڑائی میں مر رہے ہیں ان کی موت حرام ہے اور اس کے برعکس جو لوگ ان کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جا رہے ہیں وہ ” شہید ” ہیں ۔ چناچہ اس طرح کی صورتحال میں نظریے نے ظلم کو تحفظ دیا ۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ نظریے کے پروموٹرز کون ہیں ۔ یہ سارا معاشرہ مسلمانوں کا ہے اور ایک گروہ کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کے محافظ ہیں ۔ اور جو جو لوگ ہمارے خلاف ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں ۔ ایک ہی ملک میں لوگوں کو تقسیم کیا گیا اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر نظریہِ پاکستان کو مہر کی طرح استعمال کیا گیا ۔

اور اس کا ایک سیاسی سطح پر جائزہ لیں ۔

ہمارے ہاں کس قسم کے کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں ۔ پاکستان بنا ۔ پہلی تجویز یہ آئی کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی ساڑھے تین سو سیٹیں ہونی چاہئیں ۔ پہلا الیکشن 1954 میں ہوا ۔ چالیس ، چالیس کے تناسب سے اس میں 80 سیٹیں رکھیں گئیں ۔ ( ؟ ) فوقیت پہلے ہی دن سے شروع ہوگئیں ۔ سینٹ میں ایسٹ پاکستان کی اکثریت نہیں ہونی تھی کہ پانچ صوبے تھے ۔ اگر سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہوتا تو مشرقی پاکستان کہاں ہوتا ۔ ؟ مشترکہ اجلاس میں ان کی اکثریت اقلیت میں بدل جاتی اور جب انہوں نے اس پر اتجاج کیا تو ان کے خلاف نظریئے کو استعمال کیا گیا ۔ ہمارے ہاں عوامی حقوق کو دبانے کے اس نظریئے کو بارہا استعمال کیا گیا ۔ سیٹوں کی تقسیم میں بد دیانتی ہو رہی تھی اور جو نظریہ سازی کا عمل ہورہا تھا وہ بھی بددیانتی پر مبنی تھا ۔ اور جو ہاتھ اس بدنیتی اور بددیانتی کے مرتکب ہو رہے تھے ۔ ہمیں ان ہاتھوں کو پہچانا چاہیئے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری آزادی پر جو ڈاکہ پڑا ہے اگر آپ اس کی نشان دہی تلاش کریں گے تو وہ اُنہی نظریہ سازوں کے گھروں پر جاتا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ کے ایمبیسڈروں کا 1950 میں جو رول رہا ہے اور جو آج تک چل آرہا ہے اور جس آئین سازی اور عوامی حاکمیت کو ہم روتے ہیں اس میں گھر کے علاوہ بیرونی لیٹرے بھی تھے

ساجد بھائی ! ۔۔ جن کو کھیل کھیلنا تھا وہ کھیل گئے ۔ اور اب بھی کھیل رہے ہیں ۔ بس انداز بدل گیا ہے ۔ اور ہم آج تک 40 سالہ کدورت اور نفرت اپنے دل سے نہیں نکال سکے ہیں ۔ چلیں بنگالیوں کو پیچھے چھوڑیں ۔ آج ملک میں جو تقسیم ہورہی ہے ۔ اس میں ہم کس کو قصوروار ٹہرایں گے ۔ آج مہاجر ، سندھی ، پنجابی ، پٹھان اور بلوچیوں کے اپنے اپنے وطن کے جو نعرے بلند ہو رہے ہیں ۔ اس کو کیا کہا جائے گا ۔ بنگالی ہم سے سینکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے تھے جہاں بھارت بھی درمیان میں آتا تھا ۔ اس کی علیحدگی ایک فطری عمل تھی ۔ مگر آج پھر انہی نظریات کو بچے کھچے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس لیئے ہمیں اس طرف متوجہ ہونا چاہیئے ۔
 
Top