ساجد بھائی ۔ بنگلہ دیشیوںکے ساتھ روز کا اٹھنا بیٹھنا ہے اور اسی لیے میری یہ رائے بنی ہے۔ اکثریتی بنگلہ دیشی پاکستان سے الگ نہیںہونا چاہتے تھے مگر فوج نے اپنی بالادستی کے لیے انہیںمار مار کر الگ کردیا۔
ہمت بھیا ،
یعنی کہ آپ بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئے۔ فوج کی غلطیاں اپنی جگہ پر لیکن اگر فوج ان کو کچھ بھی نہ کہتی انہوں نے تب بھی یہی کچھ کرنا تھا۔ آپ سے عرض کیا تھا نا کہ بنگالیوں کی تاریخی بے چین جبلت کا مطالعہ کیجئیے تو بہت سارے سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ نہ تو یہ متحدہ ہندوستان میں چین سے بیٹھتے تھے نہ انگریز دور میں ان کی طبیعت کو سکون ملا نہ ہی یہ پاکستان سے نبھاہ کر سکے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ان کا جو حال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ان کو کبھی کراچی کی سڑکوں سے بنگالی پٹ سن کی بو آتی تھی تو کبھی آرمی ان کو اچھی نہ لگتی تھی۔ ان کا لیڈر بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بنتا تھا اور غداری پر مبنی اپنے ہر اقدام پر پاک آرمی کے ظلم کا واویلا مچا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا۔ فوج کو غلطیاں کرنے پر بنگالیوں نے خود مجبور کیا تھا۔ غداروں کو چُوری نہیں کھلائی جاتی ۔ ان کو اگر مارا تو ان کی حرکتوں کی وجہ سے کہ یہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے اور اس کا ثبوت 1971 کی جنگ میں بہت اچھی طرح سے مل بھی گیا۔ دراصل ان کا کھانا پینا ، لباس ، زبان اور خیالات مغربی پاکستان کے باسیوں کی بجائے کلکتہ والوں سے ملتے تھے اس لئیے انہوں نے وہی کچھ کیا جس کی وجہ سے میر صاحبان معروف ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو کسی نظرئیے کی بجائے زبان کے نام پہ وجود میں آیا۔ ان کو بنگلہ زبان کا تحفظ پاکستان سے علیحدگی میں نظر آتا تھا۔
میرا نائب بنگالی ہے ۔ میں جب تک اس کے ساتھ سخت رویہ رکھوں وہ بندے کا پتر بن کے رہتا ہے جیسے ہی تھوڑا نرم پڑوں تو وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف خبثِ باطن کے اظہار سے بھی نہیں چوکتا۔ حالانکہ اس کا تعلق نواکھلی سے ہے یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں کے باشندوں کو رضا کار یعنی پاکستان نواز کہا جاتا تھا۔ باقی علاقوں کا حال آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
بنگالیوں پر میں کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کے لئیے آج کل اعداد و شمار جمع کر رہا ہوں۔ جیسے ہی کافی مستند معلومات اکٹھی ہو گئیں پھر لکھوں گا۔ پاکستان کے باسیوں کو یہ بات نہ جانے کیوں باور کروائی جاتی ہے کہ بنگالی آج بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی محبت کی جھلک دیکھنی ہو تو ان کا چینل آئی دیکھئیے جو دن رات پاکستان کو گالیاں دیتا ہے اور دسمبر کا مہینہ آنے والا ہے ان دنوں میں اس کی بکواس اور بڑھ جائے گی۔ مزید درجن بھر چینل بھی ہیں جو اس کارِ مکروہ میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ ہر قوم میں کچھ اچھے اور معتدل مزاج رکھنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں لیکن قوموں کے روئیے کو ان کے رہنماؤں ، دانشوروں اور حکومت کی پالیسیوں سے ماپا جاتا ہے اور اس پیمانے سے دیکھا جائے تو بنگالی کل بھی پاکستان سے نفرت کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو خوش فہمیوں اور احساسِ کمتری کی دنیا سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔