کون بیکار یہاں ہے جو پڑھے کام کی بات

ابن جمال

محفلین
کون بیکار یہاں ہے جو پڑھے کام کی بات

فرض کیجئے دو ملک ہیں،جن میں دیرینہ دشمنی ہے۔یاقبیلے ہیں یاپھر دوخاندان یافرد میں دشمنی ہے۔ ایک شعبہ میں ایک کو برتری حاصل ہے دوسرے میں دوسرے کو برتری حاصل ہے۔ ایک کی فوج کو پہاڑی علاقوں میں لڑنے میں مہارت حاصل ہے اوردوسرامیدانی علاقوں میں دشمن کے چھکے چھڑادیتاہے ۔ایک کی فوج موسم گرما میں اچھالڑتی ہے دوسرے کی فوج موسم سرما میں دشمن پر سخت وار کرتی ہے۔یہ توملکوں کی لڑائی کا حال بیان ہوا۔

فرد اورخاندان کے لحاظ سے دیکھیں۔ ایک خاندان دولت میں ممتاز ہے ۔دوسرے کا علم میں شہرہ ہے۔ ایک شخص مارشل آرٹ جانتاہے اوردوسرے کو آتشیں اسلحہ چلاناآتاہے ۔دیرینہ دشمنی اورلڑائی میں دونوں فریق کیاکریں گے۔آپ اس سوال پر ناک بھوں چڑھائیں گے اورکہیں گے کہ یہ کیابچوں والاسوال ہے۔اس کا جواب توکوئی پانچ کلاس کا بچہ بھی دے سکتاہے۔ جو جس شعبہ اورڈیپارٹمنٹ میں مضبوط ہے۔ وہ اسی کو اپنی لڑائی کی بنیاد بنائے گا۔ اوردشمن کو اپنے مضبوط مقام پر لانے کی کوشش کرے گا۔ جس کی فوج پہاڑوں میں اچھالڑتی ہے وہ چاہے گاکہ دشمن کی فوج سے مقابلہ پہاڑی علاقہ میں ہو،جس کی فوج میدانی علاقہ میں اچھالڑتی ہے وہ چاہے گاکہ دشمن سے لوہامیدانی علاقوں میں لیاجائے۔

جوخاندان علم میں ممتاز ہے وہ چاہے گاکہ حریف کو علمی معاملات میں الجھاکر پٹخنی دی جائے اوردولت والے نمودونمائش کے باب میں اس کو خجل وشرمندہ کرناچاہیں گے۔ جومارشل آرٹ جانتاہے وہ چاہے گاکہ حریف سے مارشل آرٹ کا مقابلہ ہو اورجس نے آتشیں اسلحہ کی تربیت حاصل کی ہے وہ اسی فیلڈ میں مقابلہ کرناچاہے۔

یہ عام فطرت اورحقیقت ہے کہ ہرشخص اسی میدان میں مقابلہ کرناچاہتاہے جہاں اس کی بنیاد مضبوط ہو اورجہاں فریق مخالف پر غالب آنے کا پوراامکان ہو۔ کوئی بھی دشمن کے مضبوط گڑھ میں جاکر مقابلہ نہیں کرتا۔ کوئی بھی دشمن سے اس شعبہ میں مقابلہ نہیں کرتا جہاں وہ خود کمزور اوردشمن مضبوط ہیں۔اس کے برخلاف اگرکوئی کرے تواسے آپ بے عقلی،کم عقلی اوربہت نرم لفظوں میں غائب دماغی سے تعبیر کریں گے۔

لیکن افسوس کہ ہم مسلمان آج سے نہیں تقریباڈیڑھ دوصدی سے اسی بے عقلی میں مبتلاہیں۔ دشمن کے مضبوط محاذ پر اس کا مقابلہ کرناچاہتے ہیں اورجواس کا کمزور پہلو ہے اس پر وارنہیں کرتے۔ جو ہمارامضبوط دائو ہے ۔وہ چال نہیں چلتے۔ جو ہماری مضبوط بنیاد ہے دشمن کو گھیر کروہاں نہیں لاتے۔ بلکہ خود دشمن کے اس مقام پر چلے جاتے ہیں وہ مضبوط اورہم نہایت کمزور ہیں۔

ہوسکتاہے کہ اس طویل تمہید سے کوئی صاحب عاجز آجائیں اورکہیں کہ صاف صاف بات کریں آپ کہناکیاچاہتے ہیں۔

میں کہنایہ چاہتاہوں کہ مسلمانان عالم کی مضبوط بنیاد ہے۔ اسلام کے حق میں واقعاتی عقلی ،اورسائنسی شہادتیں اورتصدیقات۔ یعنی مذہب اسلام ایسامذہب جو عقل اورفطرت دونوں کی کسوٹی پر پورااترتاہے اس کے بالمقابل دنیا میں جتنے مذاہب ہیں وہ یاتو محض توہمات ہیں یاآثارقدیم قسم کی کوئی چیز جس کو انہوں نے نشانی سمجھ کر اپنے گلے لگارکھاہے لیکن ان میں نہ کوئی جان ہے، نہ تروتازگی ہے اورنہ ہی عقل وذہن کو اپیل کرنے کی صلاحیت۔دوسرے لفظوں میں کہیں تومسلمان مذہب کے معاملے میں مضبوط بنیاد رکھتے ہیں جب کہ اس شعبہ میں ان کے حریف چاہے عیسائی ہوں، یہودی ہوں،ہندوہوں، مجوسی ہوں،یاپھر لادین اوردہریہ قسم کے لوگ ہوں۔ وہ قرآن کے الفاظ میں ایسے مقام پر کھڑے ہیں جو ندی کے کنارے بناہے اوراب گراکہ تب گرا۔

اس کے بالمقابل مادی سازوسامان،ٹکنالوجی،عصری وسائل وذرائع ،دنیا کی معدنیات پر قبضہ یاان سے استفادہ کرنے میں مسلمان دوسری قوموں سے پیچھے ہیں۔ اگر وہ اس مقام پر تک پہنچناچاہیں تویہ اسی شرط پر ممکن ہے جب کہ ہم برابر ترقی کرتے رہیں اورہماری حریف قومیں خاموشی سے ہمارے بڑھنے کا تماشہ دیکھتی رہیں۔لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب اورمجذوب کی بڑکے علاوہ کچھ نہیں اورنہ ہی امکان کی دنیا میں ممکن ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مغرب سے یاہم عصرقوموں سے ٹکنالوجی میں مقابلہ کرناچاہتے ہیں۔ وسائل وذرائع میں مقابلہ کرناچاہتے ہیں۔ہتھیاروں کی جدت میں مقابلہ کرناچاہتے ہیں۔ تکنکیکی ترقیات میں مقابلہ کرناچاہتے ہیں۔ جدید اورنت نتئی مشینوں میں مقابلہ کرناچاہتے ہیں۔یعنی ایسے میدان میں مقابلہ کرناچاہتے ہیں جہاں مغرب اوردوسری قومیں مضبوط اورہم کمزور ہیں ۔

لیکن مذہب کی غیروں کو دعوت،ان تک دین اسلام کی تبلیغ،مذہب اسلام کی حقانیت کی وضاحت، ان کے مذاہب میں موجود کمزوریاں اورخامیاں۔ یعنی جہاں ہم مضبوط اورہم عصرقومیں کمزور ہیں۔ اس میدان میں ہم مقابلہ کرتے ہی نہیں۔ یاپھر دوسرے لفظوں میں کہیں توبعض معلوم اورنامعلوم اسباب ووجوہات کے تحت ہم یہ بھی بھول گئے کہ ہمارمضبوط محاذ کون ساہے اوردشمن کا کمزور محاذ کون ساہے۔ صرف اتنے پر بس نہیں کیا بلکہ دشمن کا مقابلہ اس فیلڈ میں کرناچاہا ۔جہاں دشمن مضبوط اورہم کمزور تھے۔ نتیجہ وہی ہوااورہورہاہے جواسباب وعلل کی دنیا میں پیش آتاہے کہ ہم مسلسل پسپائی پرمجبور ہیں۔ ہم مسلسل شکست کھارہے ہیں۔ ہم مسلسل زخم کھارہے ہیں۔ روزایک تازہ ستم ہم پرہورہاہے۔

ہم نے اپنامیدان کیوں چھوڑدیا اوران کے گڑھ میں کیوں چلے گئے۔ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب اس کا تقاضاکرتاہے کہ صفحات کے صفحات سیاہ کردیئے جائیں۔ ۔ ہم نے اپنامحاذ چاہے اپنی کم عقلی سے گنوائی ہو، اپنے مضبوط قلعہ سے نکل کر ان کے خندق میں جاگرنا چاہے کسی سازش کا نتیجہ ہو ، لیکن مختصرایہ کہ جب جاگے تبھی سویرا،اگریہ بات ہمیں ابھی سمجھ میں آگئی ہے تو پھر آج سے بلکہ ابھی سے کیوں نہ کام شروع کردیاجائے۔ آپ تیار ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

آئیے ذراسوچیں!اگرہم نے دشمن کا مقابلہ اس فیلڈ میں کیاہوتاجہاں ہم مضبوط ہیں اوردوسرے کمزور ہیں توڈیڑھ صدی میں اس کا کیانقشہ برآمد ہوتا۔اگرہم نے دعوت دین پر سارے توانائیان صرف کی ہوتیں تو نتائج کیامختلف نہیں ہوتے۔ اگرہم نے اسلام کی تبلیغ واشاعت پر کماحقہ دھیان دیاہوتا تو آج جوحالات اورمشکلات ہمیں درپیش ہیں کیاوہ دور نہ ہوجاتے؟

مولانا کلیم احمد صدیقی دعوت دین کی صدالے کر اٹھتے ہیں۔اوراللہ نے ہزاروں غیرمسلم افراد کو ان کے ذریعہ ہدایت بخش دیتاہے۔ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں حصہ لیاتھالیکن اب قبول اسلام کے بعد وہ ویران مساجد کی بازآبادکاری میں مصروف ہیں اوربلامبالغہ سینکڑوں مساجد کوآباد کرچکے ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ نومسلمین کو بھی دعوت وتبلیغ کے کام میں لگادیتے ہیں اورکہاجاسکتاہے کہ ان نومسلمین کے ذریعہ بھی ہزاروں افراد کوہدایت حاصل ہوئی ہے۔ان کی دینی علوم سے واقفیت ،حلقہ دیوبندوندوہ میں ان کی مقبولیت،حکمت علمی سے کام لینا، جوش وخروش اورنمودونمائش سے دوررہ کرکام کرنے کی یہ وہ خصوصٰات ہیں جوانہیں اپنے معاصرین میں ممتاز بناتی ہیں۔ان کا دعوتی نہج مختصرایہ ہے کہ مدعو کے لئے دل میں تڑپ ہونی چاہئے۔ جیساکہ قرآن کریم میں اللہ نے آنحضور سے کہاہے کہ آپ شاید اس غم میں جان دے دیں گے کہ یہ لوگ اسلام کیوں نہیں لاتے۔بس ویسی ہی تڑپ ہونی چاہئے اورچونکہ دل کو دل سے راہ ہے لہذا یہ ناممکن ہے کہ آپ کے دل کی تڑپ اس کے دل تک نہ پہنچے۔

مشتاق احمد کاکی ناڈاکے رہائشی ہیں۔ سادہ طبعیت ومزاج کے مالک۔ عالم دین تونہیں لیکن علم دین کا شوق فراواں ضرور ہے۔مختلف مسائل میں علماء کرام کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں خود رائی سے بچتے ہیں اورمستند ہے میرافرمایاہواکی طبعیت ومزاج سے دور ہیں۔ ان کے ہاتھ پر کئی ہزارافراد نے (آج سے تقریبادس بارہ سال پہلے کی بات ہے کہ ان کے ہاتھ پر تقریباًپانچ ہزارافراد اسلام قبول کرچکے تھے جس میں کئی پادری بھی تھے۔)نے اسلام قبول کیاہے۔ ان کا دعوتی کام کا اپناطریقہ کار ہے۔ وہ اس سلسلے میں ایک پورانظام رکھتے ہیں کہ مدعو کو کیسے متاثر کیاجائے اوراس کے سامنے دعوت کو کیسے پیش کیاجائے۔ راقم الحروف کو یہ سعادت حاصل ہے کہ ان کے محاضرات(لیکچروں)میں شریک رہااوراستفادہ کیا۔بہت سارے نوجوان ان کے درس سے سے استفادہ کرکے غیرمسلم عوام میں دعوت وتبلیغ کاکام کررہے ہیں اوراللہ نے ان کو ہدایت کا وسیلہ اورذریعہ بنارکھاہے۔

عبداللہ طارق صاحب رام پور کے رہنے والے ہیں۔ علی گڑھ سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ دوران تعلیم ہی دعوت کا شوق لگ گیا۔چونکہ ہندوستان میں ہندواکثریت میں ہیں۔ لہذا انہوں نے ہندومذہب کا بڑاگہرامطالعہ کیا۔میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتاکہ فی الحال ہندوستان میں ہندومذہب کا ان سے بڑاواقف کار کوئی نہیں ہے ۔سنسکرت بہت اچھی جانتے ہیں۔ ویدوں پر عبور رکھتے ہیں۔ ہندومذہب میں مختلف فرقے اوران کی تفاصیل پر مہارت حاصل ہے۔ مختلف فرقوں کے عقائد،باہمی اختلاف پرگہری نظرہے۔ان کادعوتی طریقہ کار یہ ہے کہ ہرشخص کو اپنے مذہب سے فطری لگائو ہوتاہے لہذا وہ ہندوویدوں سے توحید وغیرہ کی تعلیم بیان کرکے غیرمسلموں کو اسلام سے قریب کرتے ہیں اوراسلام میں داخل کرتے ہیں۔

مولاناریاض موسیٰ ملیباری،رہنے والے تو کیرالہ کے ملیبار کے ہیں۔ لیکن طویل عرصہ سے حیدرآباد کو اپنامستقر بنایاہواہے۔ تقریباًپچیس سال بغرض تجارت کویت میں مقیم رہے۔ پھر اللہ نے دل میں یہ بات ڈالی کہ غیرمسلموں میں اسلام کی دعوت وتبلیغ عام کرنی ہے۔چنانچہ اس کے بعد انہوں نے دعوت وتبلیغ کو اپنی محنت کامرکز بنایااورتجارت سے کمائی گئی دولت کو دعوت وتبلیغ میں خرچ کرکے آخرت کے بینک بیلنس میں اضافہ کررہے ہیں۔انہوں نے متعدد شادیاں کی ہیں۔ جہاں تک مجھے خبر ہے۔انہوں نے چارشادیاں کی ہیں اوران کی تمام بیویاں دعوت وتبلیغ کے کام میں ان کی معاونت کررہی ہیں اورغیرمسلم خواتین میں دعوت وتبلیغ کاکام کررہی ہیں۔وہ نہ صرف خود دعوت وتبلیغ کررہےہیں لیکن دعوت وتبلیغ سےدلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ اپنابنایاہواکورس کرواتے ہیں اوراس کورس کے دوران باہر سے آنے والے نوجوانوں کے قیام وطعام کی جملہ کفالت خود کرتے ہیں۔

یہ میں نے ہندوستان کے کچھ داعیوں کے بارے میں مختصراذکر کیاہے۔ تاکہ اندازہ ہو کہ دعوت کا میدان ہمارے لئے بالکل اوپن اورکھلاہواہے۔ نہ وہاں کوئی مسابقہ ہے، نہ چیلنج نہ ریس۔بس یہ ہے کہ دین کاعلم رکھ کر اسلام کی دعوت دوسروں تک پہنچانی ہے۔ اسلام چونکہ فطری مذہب ہے۔ انسان کی فطرت اسلام ہے۔ لہذا اگراچھے طریقے سے دعوت پہنچائی جائے تو اس کی کوئی وجہ نہیں کہ آپ کا مخاطب اسلام کوقبول نہ کرے۔جب کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب غیرفطری ہیں لہذا انسانی فطرت اس سے میل نہیں کھاتی۔ ہاں آباواجداد کی تقلید، خاندان کا رواج عام اوردیگر وجوہات کی بنیاد پر انسان کا اس مذہب سے چمٹارہتاہے لیکن اندر سے غیرمطمئن رہتاہے۔ جتنے بھی داعیان اسلام سے میری ملاقات ہوئی۔ سبھی نے یہی کہاکہ لوگ اسلام کی دعوت دیئے جانے کے منتظر ہیں۔ وہ اپنے مذہب سے غیرمطمئن ہیں بس یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کو اسلام کی جانب بلائے،دعوت دے ۔کیونکہ خود سے اپنامذہب چھوڑ کر دوسرامذہب اختیار کرناہرایک کے نصیب اوربس کی بات نہیں ۔

بزرگوں سے منسوب روایت ہے کہ ایک بزرگ کی ان کے مرید نے دعوت کی۔ دعوت کی وجہ یہ تھی کہ مرید نے نیاگھر تعمیرکرایاتھا۔ اس کے افتتاح کیلئے اپنے پیرومرشد کو دعوت دی۔ بزرگ گھر پہنچے۔ گھر بہت اچھے طریقے سے ڈیزائن اورتعمیر کیاگیاتھا۔ کمرے کشادہ تھے۔ انہوں نے اپنے مرید سےپوچھاکہ یہ توبتائوکہ کھڑکیاں کس مقصد سےبنائی ہیں۔ مرید نے جواب دیاکہ ہوااورروشنی کے اندر آنے کیلئے۔ بزرگ نے اپنے مرید کو فہمائش کی کہ اے کاش اگرتمہاری نیت کھڑکی بنانےسے یہ ہوتی کہ اذان کی آواز سنائی دیاکرے گی اورمیں مسجد کو جایاکروں گاتواس نیت کا تمہیں ثواب ملتااورہوااورروشنی کاحصول توتھاہی۔

آج مغرب کی یادوسرے ملکوں اورقوموں کی جس ترقی، ٹکنالوجی، آسائش حیات میں اعلیٰ معیار اوردیگر چیزوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔اورپوری کوشش صرف کرتے ہیں کہ یہ کس طرح ہم ان کی برابری کرسکیں۔ کس طرح علوم وفنون میں ہم ان کے مدمقابل ٹہرسکیں۔کس طرح ہم بھی اپنامعیاز زندگی تبدیل کرسکیں۔ ہماری بیشتر کوشش،سوچ اورعمل کا رخ اسی جانب ہے ۔ کیااس کا آسان طریقہ یہ نہیں ہے کہ ہم ان قوموں کو اسلام کی دعوت دیں۔ ان کو بتائیں کہ حقیقی فلاح اورکامیابی اسلام میں ہے۔ اسلام ہی بہتر نظام حیات ہے۔ اسلام میں ہی انسان کو اپنی الجھنوںکاحل اورمسائل کی کلید ملتی ہے۔یاد رکھئے اگرہم نے مختلف قوموں اورملکوں کو نشانہ بناکردعوت وتبلیغ میں لگ گئے۔ توجہاں یہ بات ہمارے لئے باعث اجروثواب اورذخیرہ آخرت ہوگی۔ وہیں ان کی ساری ٹکنالوجی، صنعت وحرف اورتمام ترقی ہمارے پاس ہوگی۔

نیت ان کو کفر کی تاریکی سے نکالنے کی ہونی چاہئے۔لیکن اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ان کی ساری ترقی، علوم وفنون میں مہارت اورمختلف ایجادات سب آپ کے قدموں میں ہوں گی۔

آخری بات!

تجارت توہرموسم میں اورسال کے365دن ہوسکتی ہے اورہواکرتی ہے لیکن تجارت کا ایک سیزن ہوتاہے ایک موسم ہوتاہے۔ مختلف اشیاء اورمختلف شعبہ حیات سے وابستہ اشیاء تجارت کا اپناموسم ہواکرتاہے جس میں تاجر کو بے حساب فائدہ ہواکرتاہے اورپورے سال کی محنت ایک سیزن میں وصول ہوجاتی ہے۔یہ ہمارامشاہدہ ہے اوربہت سارے لوگوں کو تجربہ بھی ہوگا۔ دعوت کا اپناسیزن ہے اورموسم ہے اوریہ موسم وسیزن سال کا کوئی مخصوص دن اورمہینہ نہیں ۔بلکہ یہ ہے کہ داعی اورمدعو کے درمیان یعنی دین اسلام کی دعوت دینے والے اورجس کو اسلام کی دعوت دی جارہی ہے آپ کامخاطب اس کے درمیان پرامن ماحول ہو، مثبت حالات ہوں۔

اگرحالات پرامن نہ ہوں گے توبھی اشاعت اسلام کا کارواں رواں دواں رہے گا۔اللہ کے فضل،داعی کی محنت اورمدعو کی فطرت سلیمہ کی بنیاد پر دعوت کے تخم برگ وبار لاتے رہیں گے لیکن اشاعت اسلام کی رفتار دھیمی ہوگی۔ محدود ہوگی موثر ہوگی لیکن حلقہ اثر مختصر ہوگا۔اگرحالات پرامن ہیں۔ مدعو اورداعی کے درمیان نفرت اوروحشت کے حالات نہیں ہیں توپھر داعی کی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔ مدعو کسی ذہنی تحفظ کے بغیر آپ کی بات سنتاہے۔اورقبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے اورایسے میں اشاعت اسلام کا کارواں زیادہ تیزی سے گامزن ہوتاہے۔

آپ کہیں گے کہ اس بات کے حق میں آپ کے پاس کوئی دلیل ہے۔توہماراکہنایہ ہوگاکہ آقامکی ومدنی کی سیرت طیبہ اس کا ثبوت ہے۔ مکہ میں اشاعت اسلام کاتخم بویاگیا۔ اس تخم وبیج نے برگ وبارلایا۔ لیکن اشاعت اسلام کی رفتار دھیمی رہی۔ مدینہ میں جاکر اشاعت اسلام کا قافلہ تیزی سے رواں ہوالیکن پھر بھی اہلیان مکہ اورمدینہ کے مسلمانوں کے درمیان آویزش اورلڑائیوں کی وجہ سے رفتار تھوڑی دھیمی رہی۔ لیکن جونہی صلح حدیبیہ کا واقعہ ہوا۔مسلمانوں کو کفار قبائل اورکافروں کو مسلمانوں سے ملنے جلنے کاآزادانہ ماحول میسر ہوا۔تب اشاعت اسلام کے کارواں نے رفتار پکڑلی۔اورمسلمانوں کی شوکت اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے مکہ بھی فتح کرلیااورپھر تو پوراعرب مسلمان ہوگیا۔

مسلمانوں نے غیرقوموں سے سیاسی امور پر جنتاکشاکشی کیاہے اگراس کانصف بھی دعوت وتبلیغ پر لگاتے تونتیجہ کیانکلتا۔پاکستان اورچین کے درمیان مثالی دوستی ہے۔ اگر اس کا فائدہ اٹھاکر پاکستانی مسلمان چین میں دعوت اسلام کا کام کریں تواس کے نتائج کیانکل سکتے ہیں ؟ہندوستان کا بھوٹان میں اچھااثرورسوخ ہے۔ اگرہندوستانی مسلمان بھوٹان اورخود ہندوستان میں دعوت وتبلیغ کواپنی پہچان بنالیں تواس کانتیجہ کیاہوسکتاہے؟

علامہ اقبال یوں تو علم ودانش کا معدن تھے۔انہوں نے ایک مرتبہ بڑی قیمتی، گہری بات کہی۔ جو کسی بھی قوم کے عروج وزوال کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے حاضرین ومخاطبین سے کسی قوم کے مسلسل عروج میں رہنے کا نسخہ یہ ہے کہ اس میں ہمیشہ نیاخون شامل ہوتارہے۔ نظام جسمانی بھی یہی ہے کہ نیاخون بنتارہتاہے اگرنیاخون بننابند ہوجائے تو۔انہوں نے مثال دی کہ اسلام میں اولاعرب آئے۔ اموی اورعباسی اگرچہ عرب تھے لیکن ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی بڑی تعداد عجمیوں کی تھی۔ پھر جب عربوں پرزوال آیاتواس کی تلافی سلجوقیوں کے ذریعہ ہوگئی۔ جب سلجوقیوں پر زوال آیاتواس وقت مغل اورترک (عثمانی)ان کی جگہ لینے کیلئے موجود تھے۔ لیکن جب مغل اور ترکوں پرزوال آیاتوان کی جگہ لینے کیلئے عالم اسلام میں کوئی دوسری قوم نہ تھی۔ علامہ قبال کے ملفوظ کاخلاصہ یہ ہے کہ اگربحیثیت قوم دوسری قوم اسلام میں شامل ہوتی رہے تواسلام کو نیاجوش،نیاولولہ،نئی ہمت،تازگی نیاامنگ ملتارہے گا۔ جہاں دعوت وتبلیغ کاکام کرنے والے اس کے ذریعہ اپنی آخرت سنواریں گے وہیں مسلمان بھی مادی اوردنیوی اعتبار سے بہترہوں گے اوریہ اسلام کی سرخروئی کابھی سامان ہوگا۔
 
دعوت و تبلیغ بھی اولین ترجیح نہیں ہے۔ اولین ترجیح یہی ہے کہ پہلے خود اچھے مسلمان بن جاؤ۔۔باقی کاموں کی راہ خودبخود ہموار ہوتی چلی جائے گی۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت دانشمندانہ تحریر پیش کرنے پر ناچیز ممنون ہے۔ اللہ ہم کو دین کی سمجھ عطا فرمائے کہ اللہ جس سے محبت رکھتا ہے اس کو دین کی فہم عطا فرما دیتا ہے۔ آمین
 

ابن جمال

محفلین
دعوت و تبلیغ بھی اولین ترجیح نہیں ہے۔ اولین ترجیح یہی ہے کہ پہلے خود اچھے مسلمان بن جاؤ۔۔باقی کاموں کی راہ خودبخود ہموار ہوتی چلی جائے گی۔۔۔
ریاض موسی ملیباری جن کا ذکر آچکاہے۔ان سے ہمارے ایک ساتھی نے یہی سوال کیاکہ جب ہم خود بگڑے ہوئے ہیں تودوسروں کو دین کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت بھی اسی بناء پر غیروں میں دعوت کاکام کرنے سے ہچکتی ہے۔
ریاض موسی ملیباری نے جوکچھ فرمایااس کا خلاصہ یہ ہے کہ
بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں مختلف اخلاقی ونفسیاتی بیماریوں میں مبتلاتھے۔انہوں نے بعد میں جس جس طرح سے حضرت موسی کو تنگ کیاوہ اس کی واضح مثال ہے ۔لیکن ان سب کے باوجود اللہ نے یہ حکم نہیں دیاکہ تم پہلے بنی اسرائیل کی اصلاح کرو اورجب ان کی اصلاح ہوجائے تو اس کے بعد فرعون کو دین کی دعوت دو بلکہ حکم الہی ہوا۔ "اذھب الی فرعون انہ طغی"فرعون کے پاس جائو(اس کو اسلام کی دعوت دو)بیشک وہ حد سے تجاوز کرچکاہے۔

یہ خیال وفکر کہ پورے مسلمان ٹھیک ہوجائیں اس کے بعد غیروں میں اسلام کی دعوت دی جائے ،غیرمناسب اورغیرعملی ہے۔ بلکہ دونوں کام ساتھ ساتھ ہونے چاہئیں۔ جس میں ایک جانب اپنی اوراپنوں کی اصلاح ہو جس کو تبلیغی جماعت بخوبی انجام دے رہی ہے اوردوسری جماعت اسی طرز پر ایسی ہونی چاہئے جوکہ غیروں کواسلام کی دعوت دے۔
 
آپ نے جو مثال دی ہے اسکا محل نہیں ہے کیونکہ پہلے یہ تو دیکھئے کہ کون حکم دے رہا ہے اور کس کو دے رہا ہے۔۔۔ حکم دینے والی ذات اللہ جل جلالہ کی ہے جو خوب جانتا ہے کہ اسکی مخلوق میں سے کون کس کام کا اہل ہے اور جن کو حکم دیا جارہا ہے وہ کوئی عام مسلمان نہیں بلکہ اللہ کے ایک جلیل القدر اور اولوالعزم پیغمبر ہیں جنکے نفوس کا تزکیہ ہوچکا ہوتا ہے (اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُواْ صَغَارٌ عِندَ اللّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُواْ يَمْكُرُونَ } الأنعام/127
 

ابن جمال

محفلین
تکلف برطرف!
قرآن پاک میں ہی اللہ کا حکم ہے
فبھداھم اقتدہ
یعنی انبیاء کرام کے اسوہ نمونہ کی پیروی کرو۔اس کا کیامطلب ہے۔جب تک آپ یہ ثابت نہ کریں یہ حکم حضرت موسی کے ساتھ خاص تھاامت اسلامیہ اس کو ماننے کی پابند نہیں ہے یاوہ ایک مخصوص دور کیلئے تھا تب تک ہرمسلمان کو حضرت موسی کے اس نمونہ اورسیرت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک جانب اپنی قوم کی بھی اصلاح کی جائے اوردوسری جانب دیگراقوام کوبھی ایمان واسلام کی دعوت دی جائے۔والسلام
 
Top