کون جانے تری جدائی میں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بحر:​
فاعلاتن ؛ مفاعلن ؛ فعلن​
اشعار:​
کون جانے تری جدائی میں​
راتوں کو تنہا کتنا رویا ہوں​
سارے چشمے بھی خشک ہوئے ہیں​
یاد میں تیری اتنا رویا ہوں​
شب کے تارو اُسے جا کر کہنا​
بچھڑ کے جب بھی ہنسا، رویا ہوں​
ساقی تیرا میخانہ دائم ہو​
پی کہ جامِ صہبا رویا ہوں​
دیکھ کے اُس کو گر خوشی میں مَیں​
مسکرایا، وہ سمجھا، رویا ہوں​
رشتے ناطے یہ کیسے؟ سب جھوٹے​
زخمِ جاں یاد آیا، رویا ہوں​
 

الف عین

لائبریرین
ان مصرعوں کی تقطیع کرنے کی کوشش کرو، یہ درست نہیں:​

سارے چشمے بھی خشک ہوئے ہیں​
شب کے تارو اُسے جا کر کہنا​
بچھڑ کے جب بھی ہنسا، رویا ہوں​
ساقی تیرا میخانہ دائم ہو​
پی کہ جامِ صہبا رویا ہوں​
ان کے علاوہ بھی، پہلے شعر میں ’راتوں کو محض ’رات‘ تقطیع ہوتا ہے۔​
اور​
دیکھ کے اُس کو گر خوشی میں مَیں​
بھی صوتی طور پر اچھا نہیں ’میں میں ‘ کی وجہ سے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ان مصرعوں کی تقطیع کرنے کی کوشش کرو، یہ درست نہیں:​

سارے چشمے بھی خشک ہوئے ہیں​
شب کے تارو اُسے جا کر کہنا​
بچھڑ کے جب بھی ہنسا، رویا ہوں​
ساقی تیرا میخانہ دائم ہو​
پی کہ جامِ صہبا رویا ہوں​
ان کے علاوہ بھی، پہلے شعر میں ’راتوں کو محض ’رات‘ تقطیع ہوتا ہے۔​
اور​
دیکھ کے اُس کو گر خوشی میں مَیں​
بھی صوتی طور پر اچھا نہیں ’میں میں ‘ کی وجہ سے​

کوشش کرتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں نے ان کی تقطیع اس طرح کی تھی:


سارے چشمے بھی خشک ہوئے ہیں
سارِ چشمے ؛ بِ خشک ہو ؛ ئے ہے
شب کے تارو اُسے جا کر کہنا
شب کِ تارو ؛ اسے جَ کے ؛ کہنا
بچھڑ کے جب بھی ہنسا، رویا ہوں
بچڑ کے جب ؛ بِ ہن سَ رو ؛ یا ہو
ساقی تیرا میخانہ دائم ہو
ساقِ تیرا ؛ مِ خانَ دا ؛ ئم ہو
پی کہ جامِ صہبا رویا ہوں
پی کِ مے جا ؛ مِ صہ بَ رو ؛ یا ہو
اور پہلے شعر کو اگر ایسے کر دیں تو
کون جانے تری جدائی میں
ساری شب تنہا کتنا رویا ہوں
اور​
دیکھ کے اُس کو جب خوشی سے مَیں
مسکرایا، وہ سمجھا، رویا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
آخر الذکر دونوں شعر درست ہو گئے ہیں۔
ہوئے ہیں۔ فعلن درست ہے، لیکن اس لفظ کا تلفظ ایسے نہیں ہوتا۔ محض ہُ ئے ہوتا ہے، یعنی ہوئے ہیں در اصل فعولن ہوتا ہے، فاعلن نہیں۔
جا کر۔ بھی محض جَ کر نہیں، مکمل جا کر تقطیع ہونا چاہئے۔
بچھڑ میں چھ متحرک ہے، مفتوح، یہاں ساکن تقطیع کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہنسا کا نون معلنہ نہیں، غنہ ہے، اس کی تقطیع نہیں ہوتی، فعو کے وزن پر ہونا چاہئے۔
مے خانہ بھی ’مخانہ‘ تلفظ درست نہیں، اس کی بھی ے نہیں گرائی جا سکتی۔
لکھا تو یہ ہے ’پی کہ جامِ صہبا رویا ہوں‘ اور تقطیع کر رہے ہو ’پی کہ میں جامِ صہبا رویا ہوں‘، یہ تو درست ہے، بس ’کہ‘ نہیں ، یہاں ’کے‘ کا محل ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہوئے ہیں۔ فعلن درست ہے، لیکن اس لفظ کا تلفظ ایسے نہیں ہوتا۔ محض ہُ ئے ہوتا ہے، یعنی ہوئے ہیں در اصل فعولن ہوتا ہے، فاعلن نہیں۔
جا کر۔ بھی محض جَ کر نہیں، مکمل جا کر تقطیع ہونا چاہئے۔
بچھڑ میں چھ متحرک ہے، مفتوح، یہاں ساکن تقطیع کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہنسا کا نون معلنہ نہیں، غنہ ہے، اس کی تقطیع نہیں ہوتی، فعو کے وزن پر ہونا چاہئے۔
مے خانہ بھی ’مخانہ‘ تلفظ درست نہیں، اس کی بھی ے نہیں گرائی جا سکتی۔

آج کوشش کرتا ہوں ان کو بھی درست کرنے کی۔

لکھا تو یہ ہے ’پی کہ جامِ صہبا رویا ہوں‘ اور تقطیع کر رہے ہو ’پی کہ میں جامِ صہبا رویا ہوں‘، یہ تو درست ہے، بس ’کہ‘ نہیں ، یہاں ’کے‘ کا محل ہے۔
پی کے میں جامِ صہبا رویا ہوں
پہلے ٹائپنگ کی غلطی ہو گئی تھی۔ معافی چاہتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب دیکھیں، کچھ تبدیلیاں​

کون جانے تری جدائی میں​
ساری شب تنہا کتنا رویا ہوں​
سارے چشمے بھی خشک ہیں جاناں
یاد میں تیری اتنا رویا ہوں​
شب کے تارو اُسے خبر کر دو
بچھڑ کے مسکرایا، رویا ہوں
ہجر کی شب کی وہ اذیت بھی
پی کے میں جامِ صہبا رویا ہوں
دیکھ کے اس کو جب خوشی سے میں
مسکرایا، وہ سمجھا، رویا ہوں​
رشتے ناطے یہ کیسے؟ سب جھوٹے​
زخمِ جاں یاد آیا، رویا ہوں​
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کیونکہ نہیں ہے، اس لئے پہلے دونوں اشعار کے درمیان فاصلہ رکھو، تاکہ یہ غلط فہمی دور کی جا سکے کہ قوافی اتنا، کتنا، جتنا ہیں۔
بچھڑ کے مسکرایا، رویا ہوں​
میں اب بھی بچھڑ کے تلفظ کی غلطی ہے جیسا کہ لکھ چکا ہوں۔ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ رونا اور مسکرانا ایک ساتھ کیسے؟​
ہجر کی شب کی وہ اذیت بھی
یہ مصرع درست ہے لیکن اب بھی شعر دو لخت ہے، یعنی یہ مصرع مطلب واضح نہیں کرتا۔ ہاں، ’بھی‘ کی جگہ محض ‘تھی‘ ہو تو واضح ہو جاتا ہے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس شعر کو ابھی زیرِ غور ہی رکھتا ہوں۔​
شب کے تارو اُسے خبر کر دو
بچھڑ کے مسکرایا، رویا ہوں
باقی غزل اس طرح کر دی ہے۔
پہلے دو اشعار کے درمیان دو اشعار کا فاصلہ کر دیا ہے۔



کون جانے تری جدائی میں
ساری شب تنہا کتنا رویا ہوں
ہجر کی شب کی وہ اذیت تھی
پی کے میں جامِ صہبا رویا ہوں
دیکھ کے اس کو جب خوشی سے میں
مسکرایا، وہ سمجھا، رویا ہوں
سارے چشمے بھی خشک ہیں جاناں
یاد میں تیری اتنا رویا ہوں
رشتے ناطے یہ کیسے؟ سب جھوٹے
زخمِ جاں یاد آیا، رویا ہوں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مزید دو اشعار :​

کون جانے تری جدائی میں
ساری شب تنہا کتنا رویا ہوں
ہجر کی شب کی وہ اذیت تھی
پی کے میں جامِ صہبا رویا ہوں​
دیکھ کے اس کو جب خوشی سے میں​
مسکرایا، وہ سمجھا، رویا ہوں
سارے چشمے بھی خشک ہیں جاناں
یاد میں تیری اتنا رویا ہوں
رشتے ناطے یہ کیسے؟ سب جھوٹے
زخمِ جاں یاد آیا، رویا ہوں
تیری یادیں ہیں زخمِ ہجراں ہے
پا کے تیری تمنا رویا ہوں
صبر کا حوصلہ بھی ہے مجھ میں
تُو نے کیا مجھ کو دیکھا؟ رویا ہوں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرا خیال ہے مشقِ سخن ہی سہی، یہ غزل فی الحال تک اتنی ہی ٹھیک ہے۔ باقی دیکھتے ہیں اگر کوئی خیال سوجھا تو پھر بعد میں اپڈیٹ کر دوں گا۔


کون جانے تری جدائی میں

ساری شب تنہا کتنا رویا ہوں
ہجر کی شب کی وہ اذیت تھی
پی کے میں جامِ صہبا رویا ہوں
دیکھ کے اس کو جب خوشی سے میں
مسکرایا، وہ سمجھا، رویا ہوں
سارے چشمے بھی خشک ہیں جاناں
یاد میں تیری اتنا رویا ہوں
رشتے ناطے یہ کیسے؟ سب جھوٹے
زخمِ جاں یاد آیا، رویا ہوں
 
Top