نور وجدان
لائبریرین
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ، ہم کو ہنساتے جائیں گے
حضور ﷺ پرنورﷺ اس دنیا کی رحمت ہیں . اس رحمت کو دو عالم لیے مقیم کر دیا گیا ہے . اس جہاں میں بھی ''وہ'' رحمت اور روزِ محشر بھی رحمت کے سبب عالم کو فیض ملا کرے گا. کیسا روحانی فیض ہوگا وہ جس کے لیے ''حق'' نے قرانِ پاک میں ہمیں خود آگاہ کر دیا. ہمیں نشانیاں کھول کھول کر بتائیں تاکہ ہم اپنی راہیں متعین کرلیں . ہم اس محبت کو حق کیسے ادا کریں گے ؟ بھلا کس محبت کا....َ؟
اس محبت کا ، جو ہمارے آنے سے پہلے ، ہماری پیدائش سے پہلے ، ہمارے مسلمان و کافر ہونے سے پہلے ، ہماری سنی اور شیعہ ہونے سے پہلے ہی ودیعت ہوگئی . اس محبت کو نعم البدل تو ''ہم'' انکار کرکے کر رہیں .. اور کوئی انتہا درجے کی توہمات میں مبتلا ہوکر... جب محبت کا انکار کر دیا جاتا ہے ، تو 'محب'' کو بڑی تکلیف ہوتی ہے ...!!
وہ پاک ذات ﷺ جو اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے ، اس جہاں کو یکساں محبوب رکھتی ہے . کیسے ...! بابا بلھے شاہ رح کو ان کے استادِ گرامی نے مسجد میں بوقت جمعہ مٹھائی کی تقسیم کا کہا. آپ نے پوچھا..
اے محترم ! کس طرز پر تقسیم کروں : اللہ تعالیٰ کی طرز پر یا حضرت محمدﷺ کی طرز پر.... یہ سوال استادِ گرامی سمجھ نا پائے اور کہ دیا اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر .. .! اور آپ نے تقسیم میں ''تضاد'' رکھا..! استاد محترم نے ''تضاد'' کی وجہ ٌوچھی تو کہا اللہ کی تقسیم تضاد پر چلتی ہے اور نبی کی تقسیمﷺ مساوات پر.....! اللہ تعالیٰ کے دینے اور نہ دینے میں حکمت پوشیدہ ہے اور شکوہ مناسب لگتا ہی نہیں جبکہ نبیﷺ کی تقسیم میں میں مساوات ہے .. جو آئے گا ، جس طریق کا پیروکار ہوگا اس کو جناب نبی پاکﷺ سے مساوات کی بنیاد پر ملے گا اور اس مساوات سے دنیا میں محبت کا رنگ ایسا نکھرنا ہے ، ایسا نکھرنا ہے کہ سب کا طریق ہی ایک ہوجانا ہے .. سب کا قبلہ ہی ایک ہوجانا ہے ... سب نے راستہ سیدھا کر لینا .... یہ محبت کو تقاضہ ہے اور اس تقاضے کو ہم بھلا بیٹھے ہیں .. یہ تقاضا کیا محبت کی جہاں میں ترغیب نہیں دیتا ؟ دیتا ہے...! کوئی سمجھے تو سہی ...! کوئی مانے تو سہی ...! کوئی تو سمجھے ...! سمجھنا بالکل اسی طرح جس طرح '' جاننا اور نہ جاننا'' برابر نہیں ہوسکتا ہے َ؟
جو آپﷺ کی محبت کا دم بھرے گا اس کو ایک نعمت سے نواز گیا .. وہ جامِ لبالب یونہی نہیں ملے گا... اس کے لیے سمت کو درست کرنا لکھ دیا گیا.. جو حوضِ کوثر پی لے گا وہ انعام کا مستحق ہوگا....! کسی کے یہ '''انعام '' جنت ہوگا اور کوئی شافع کے درجے کو پہنچ جائے گا.. انعامات کیا کیا ہیں یہ تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جو جان گیا اس کو واپس پھرنا یا لوٹنا اچھا نہیں ہوگا اور وہی دین کے مرتد ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ پاک نے قرانِ پاک میں سورت التوبہ ' میں''براءت کا اظہار کیا ہے .. براءٹ کا معانی ہے 'بیزاری '' ... اللہ بھی بندوں سے بیزار ہوا کبھی ... کیسے نہ ہو... دیکھئے ذرا... ! جب شب ِ براءت آتی ہے تو کون گناہوں سے بیزار ہوتا ہے اور کون اس کو '' شادی '' کا عندیہ سمجھتا ہے .. سوچیے ..! قرانِ پاک میں سوچنے والوں کے لیے جگہ جگہ نشانیاں ہیں اور جو سوچ نہیں سکتے ان کے دل ''طلاق'' کھا چکے ہیں .. طلاق کے بعد '' رجوع '' کیسا... اس لیے اللہ تعالیٰ بندوں سے بیزار ہوا.. اور ان کا داخلہ خانہ کعبہ میں ممنوع کردیا کہ یہ منافقت کرتے .. ایک طرف حاجیوں کو پانی دیتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت رسالت مآب کی شان میں باتیں کرتے ہوئے گستاخ بن جاتے ہیں ... سوچنا تو یہ ہے کہ گستاخ کے ساتھ سلوک کیسا ہوگا آپ کا...
ہمارے پیاری نبیﷺ گستاخ کو بھی حبیب رکھتے ہیں کہ ایک دن ، ایک دن اس نے رجوع کرنا ، اس نے لوٹنا ہے ، اس کے دل پر ابھی ''مہر' نہیں لگی اور جب وہ رجوع کریں گے تو ان سے اچھا کوئی نہ ہوگا.. اپنی امت سے یہ محبت ''تمثیلی '' ہے کہ اس محبت کا ثانی کوئی نہیں ہے .. محبت میں بڑا درد چھپا ہوتا ہے مگر کون اس درد کو سمجھتا ہے .. رسول پاکﷺ کو ایک حبیب جناب سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض کی صورت میں ملا .. جو ''ثانی الثنین '' کا لقب پایا گیا.. کہ ''دو بندے'' ہی غارِ ثور میں تھے اور دوجا کوئی نہ تھا.. معراج کے وقت جب دوذخ و جنت کی سیر کرائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے جناب حضرت ابو بکر صدیق رض کی شکل کا فرشتہ بھیجا اور اس کی رفاقت میں رسول پاکﷺ نے دوذخ کی سختیوں کو دیکھا.... کون جانے گا محبت کا درد .. کوئی نہیں جان سکتا اور جو جان لیتا ہے وہ رجوع ہی کرتا ہے وہ کبھی واپس نہیں لوٹتا اور نہ ہی وہ مرتد ہوتا ہے !
آپ روتے جائیں گے ، ہم کو ہنساتے جائیں گے
حضور ﷺ پرنورﷺ اس دنیا کی رحمت ہیں . اس رحمت کو دو عالم لیے مقیم کر دیا گیا ہے . اس جہاں میں بھی ''وہ'' رحمت اور روزِ محشر بھی رحمت کے سبب عالم کو فیض ملا کرے گا. کیسا روحانی فیض ہوگا وہ جس کے لیے ''حق'' نے قرانِ پاک میں ہمیں خود آگاہ کر دیا. ہمیں نشانیاں کھول کھول کر بتائیں تاکہ ہم اپنی راہیں متعین کرلیں . ہم اس محبت کو حق کیسے ادا کریں گے ؟ بھلا کس محبت کا....َ؟
اس محبت کا ، جو ہمارے آنے سے پہلے ، ہماری پیدائش سے پہلے ، ہمارے مسلمان و کافر ہونے سے پہلے ، ہماری سنی اور شیعہ ہونے سے پہلے ہی ودیعت ہوگئی . اس محبت کو نعم البدل تو ''ہم'' انکار کرکے کر رہیں .. اور کوئی انتہا درجے کی توہمات میں مبتلا ہوکر... جب محبت کا انکار کر دیا جاتا ہے ، تو 'محب'' کو بڑی تکلیف ہوتی ہے ...!!
وہ پاک ذات ﷺ جو اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے ، اس جہاں کو یکساں محبوب رکھتی ہے . کیسے ...! بابا بلھے شاہ رح کو ان کے استادِ گرامی نے مسجد میں بوقت جمعہ مٹھائی کی تقسیم کا کہا. آپ نے پوچھا..
اے محترم ! کس طرز پر تقسیم کروں : اللہ تعالیٰ کی طرز پر یا حضرت محمدﷺ کی طرز پر.... یہ سوال استادِ گرامی سمجھ نا پائے اور کہ دیا اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر .. .! اور آپ نے تقسیم میں ''تضاد'' رکھا..! استاد محترم نے ''تضاد'' کی وجہ ٌوچھی تو کہا اللہ کی تقسیم تضاد پر چلتی ہے اور نبی کی تقسیمﷺ مساوات پر.....! اللہ تعالیٰ کے دینے اور نہ دینے میں حکمت پوشیدہ ہے اور شکوہ مناسب لگتا ہی نہیں جبکہ نبیﷺ کی تقسیم میں میں مساوات ہے .. جو آئے گا ، جس طریق کا پیروکار ہوگا اس کو جناب نبی پاکﷺ سے مساوات کی بنیاد پر ملے گا اور اس مساوات سے دنیا میں محبت کا رنگ ایسا نکھرنا ہے ، ایسا نکھرنا ہے کہ سب کا طریق ہی ایک ہوجانا ہے .. سب کا قبلہ ہی ایک ہوجانا ہے ... سب نے راستہ سیدھا کر لینا .... یہ محبت کو تقاضہ ہے اور اس تقاضے کو ہم بھلا بیٹھے ہیں .. یہ تقاضا کیا محبت کی جہاں میں ترغیب نہیں دیتا ؟ دیتا ہے...! کوئی سمجھے تو سہی ...! کوئی مانے تو سہی ...! کوئی تو سمجھے ...! سمجھنا بالکل اسی طرح جس طرح '' جاننا اور نہ جاننا'' برابر نہیں ہوسکتا ہے َ؟
جو آپﷺ کی محبت کا دم بھرے گا اس کو ایک نعمت سے نواز گیا .. وہ جامِ لبالب یونہی نہیں ملے گا... اس کے لیے سمت کو درست کرنا لکھ دیا گیا.. جو حوضِ کوثر پی لے گا وہ انعام کا مستحق ہوگا....! کسی کے یہ '''انعام '' جنت ہوگا اور کوئی شافع کے درجے کو پہنچ جائے گا.. انعامات کیا کیا ہیں یہ تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جو جان گیا اس کو واپس پھرنا یا لوٹنا اچھا نہیں ہوگا اور وہی دین کے مرتد ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ پاک نے قرانِ پاک میں سورت التوبہ ' میں''براءت کا اظہار کیا ہے .. براءٹ کا معانی ہے 'بیزاری '' ... اللہ بھی بندوں سے بیزار ہوا کبھی ... کیسے نہ ہو... دیکھئے ذرا... ! جب شب ِ براءت آتی ہے تو کون گناہوں سے بیزار ہوتا ہے اور کون اس کو '' شادی '' کا عندیہ سمجھتا ہے .. سوچیے ..! قرانِ پاک میں سوچنے والوں کے لیے جگہ جگہ نشانیاں ہیں اور جو سوچ نہیں سکتے ان کے دل ''طلاق'' کھا چکے ہیں .. طلاق کے بعد '' رجوع '' کیسا... اس لیے اللہ تعالیٰ بندوں سے بیزار ہوا.. اور ان کا داخلہ خانہ کعبہ میں ممنوع کردیا کہ یہ منافقت کرتے .. ایک طرف حاجیوں کو پانی دیتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت رسالت مآب کی شان میں باتیں کرتے ہوئے گستاخ بن جاتے ہیں ... سوچنا تو یہ ہے کہ گستاخ کے ساتھ سلوک کیسا ہوگا آپ کا...
ہمارے پیاری نبیﷺ گستاخ کو بھی حبیب رکھتے ہیں کہ ایک دن ، ایک دن اس نے رجوع کرنا ، اس نے لوٹنا ہے ، اس کے دل پر ابھی ''مہر' نہیں لگی اور جب وہ رجوع کریں گے تو ان سے اچھا کوئی نہ ہوگا.. اپنی امت سے یہ محبت ''تمثیلی '' ہے کہ اس محبت کا ثانی کوئی نہیں ہے .. محبت میں بڑا درد چھپا ہوتا ہے مگر کون اس درد کو سمجھتا ہے .. رسول پاکﷺ کو ایک حبیب جناب سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض کی صورت میں ملا .. جو ''ثانی الثنین '' کا لقب پایا گیا.. کہ ''دو بندے'' ہی غارِ ثور میں تھے اور دوجا کوئی نہ تھا.. معراج کے وقت جب دوذخ و جنت کی سیر کرائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے جناب حضرت ابو بکر صدیق رض کی شکل کا فرشتہ بھیجا اور اس کی رفاقت میں رسول پاکﷺ نے دوذخ کی سختیوں کو دیکھا.... کون جانے گا محبت کا درد .. کوئی نہیں جان سکتا اور جو جان لیتا ہے وہ رجوع ہی کرتا ہے وہ کبھی واپس نہیں لوٹتا اور نہ ہی وہ مرتد ہوتا ہے !