طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شیخ ابراہیم ذوق
کون سا ہمدم ہے تیرے عاشقِ بے دم کے پاس
غم ہے اُس کے پاس ہمدم، اور وہ ہےدم کے پاس
ہم کو کیا ساقی، جو تھا جامِ جہاں بیں جم کے پاس
تیراجامِ بادہ ہو، اور تُو ہو اِس پُرغم کے پاس
خط کہاں آغاز ہے پشتِ لبِ دلدار پر
ہیں جنابِ خضر آئے عیسیٰء مریم کے پاس
مردمک کے پاس ہے یہ اشکِ خونیں کا ہجوم
یا دھرے یاقوت ہیں یہ دانۂ نیلم کے پاس؟
روح اِس آتش بجاں کی بعدِ مُردن جوں پتنگ
آئے گی اڑ کر چراغِ خانۂ ماتم کے پاس
کس کی قسمت ہے کہ زخمِ تیغِ قاتل ہو نصیب
جان سے جائیں، نہ جائیں گے مگرمرہم کے پاس
کیا مزے لے لے کے گل کھائیں اگر آجائے ہاتھ
یہ جو چھلّا آپ کی انگلی میں ہے خاتم کے پاس
زُلف سے بے وجہ خّطِ سبز ہم پہلو نہیں
ہے لہکتا عشق پیچاں سنبلِ پُر خم کے پاس
واہ صیّادِ اجل اور واہ صیّادی کا پیچ
کِھچ کے ہے اسفند یار آیا کہاں رُستم کے پاس
دیکھو فیّاضِ ازل نے کیا دِیا آنکھوں کو فیض
کاسہ در کف ہو کے یم آتے ہیں ان کی نم کے پاس
ہے جو قسمت میں، تو دریا بھی کبھی ہو جائے گا
آ لگا ہے اپنا قطرہ بھی کنارِ یم کے پاس
کر کے بحر و قافیہ تبدیل، لکھ اور اک غزل
بیٹھ کوئی دم تو اے ذوق اور اس پُر غم کے پاس