شام کی غزل کی تو درست بحر ہی نہیں ہے، ایسے ارکان مانوس بحور میں نہیں ہیں۔
نزدیک ترین بحریں دو ہو سکتی ہیں۔
فاعلاتن مفاعلن فعلن۔۔۔ جیسے
کوئی امید بر نہیں آتی
اور
فاعلاتن فَعِلاتن فعلن۔۔ اس وقت کوئی مثال یاد نہیں آ رہی ہے۔
عزیزم خلیل بھی ان دونوں بحروں میں کنفیوز ہو گئے ہیں۔ اچھے اچھے ہو سکتے ہیں کہ یہ دونوں بحریں بہت ملتی جلتی ہیں۔خلیل کی اصلاح میں ثانی مصرعے سب فاعلاتن فعلاتن فعلن میں ہیں، لیکن ان پر گرہیں فاعلاتن مفاعلن فعلن کی ہیں،
فاعلاتن فعلاتن فعلن:
کون ہے کب سے جدا بھول گئے
بھولے تجھ کو تو خدا بھول گئے
اب تو ہم اپنا کہا بھول گئے
تیری ہر ایک خطا بھول گئے
مرد و زن سب ہی حیا بھول گئے
ہم جو پندارِ وفا بھول گئے
فاعلاتن مفاعلن فعلن
کچھ کہا ہم نے نا سنا تم نے
بات ہے اپنے ظرف کی دیکھو!
اب کے کچھ اور ہی چلیں رسمیں
بعد مدت کے لوٹ کر آئے
زمین ہی اس بحر میں ممکن نہیں ہے۔
فاعلاتن۔۔ تیری ہر اے۔۔
مفاعلن۔۔۔ک خط اَ بو۔۔ یعنی خطا وزن میں نہیں آتا، ’خط آ‘ آتا ہے۔
فعلن۔۔ لَ گئے
زمین کے حساب سے درست
فاعلاتن فَعِلاتن فعلن
تیری ہر اے۔۔۔ فاعلاتن
ک خطا بو۔۔ فَعِلاتن
ل گئے۔۔ فعلن
مختصر یہ کہ پہلے مصرعوں کو اس بحر میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔