کوٹہ سسٹم مسئلے کا حل نہیں

کوٹہ سسٹم کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے

جو کام سیاستدانوں کے کرنے کا تھا اس پر ان کے منہ پر سیاسی مصلحت کے تالے پڑے رہے مگر جو ذاتی مفاد اور سیاسی بازی گری سے لاتعلق ہیں انھوں نے وہ کام کردیا، یعنی ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے کوٹہ سسٹم کو کراچی اور سندھ کی بدامنی کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے، اہلیت پر ملازمتیں دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ تو اب ہر ایک کو یاد آیا کہ سندھ میں تقریباً چالیس سال سے یہ غیر منصفانہ نظام رائج ہے۔ اس سلسلے میں سیاستدانوں کی مصلحت کا تو کچھ جواز بنتا ہے مگر صحافت کا نہیں۔ آج جو صحافی اس موضوع پر (مجھ سمیت) لکھ رہے ہیں انھیں پہلے کیوں خیال نہ آیا؟ مگر خیر دیر سے ہی سہی اور کسی کی بھی وجہ سے اس موضوع پر غور و فکر کا آغاز تو ہوا۔
۔۔
۔۔
سیاستدان تو اپنے مفاد کے پیش نظر اس انداز فکر کو اپنانے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے مگر ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے جو بات کہی ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے دکھاوے کی کارکردگی کے بجائے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں کیونکہ بیرونی دشمنوں کا مقابلہ اندرون ملک امن و امان اور ملی یکجہتی کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام صوبوں کے عوام کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں اور کوئی بھی احساس محرومی یا احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔۔
کوٹہ سسٹم کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے

نجمہ عالم ایکسپریس

1973 کا بنا ہوا کوٹہ سسٹم اج 2016 تک رائج ہے۔ پاکستان میں ہر انسان کو بنیادی حق ہے برابری کا۔ اس دنیا میں ہر انسان برابرہے صرف سندھ میں نہیں۔ مہاجر قوم کو اس دوران تیسرے درجہ کا شہری بنادیا گیا ہے۔ تعلیم روزگار اور کاروبار ہر چیز پر بندش لگادی گئی ہے۔ قوم پر اپنے ایجنٹز مسلط کیے گئے جنھوں نے "منزل نہیں رہنما چاہیے" کے نعرہ لگا کر قوم کو گمراہ کیا۔ قصور صرف یہ تھا کہ مہاجرقوم پاکستان بنانے کی ذمہ دار ہے۔ اس جرم کی سزا نسلوں تک کو دی گئی۔

اب کوٹہ سسٹم مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس نسلوں کو کیا ہوگا جو 73 سے لیکر 2016 تک محرومی کا شکار رہی؟

کچھ عرصہ پہلے یہ بات کی تھی مگر اب یہ سب کو سامنے نظر ہی ارہا ہے


"

میرا خیال ہے کہ اب وقت اگیا ہے کہ کراچی، حیدراباد، سکھر اور سندھ کے وہ علاقے جہاں اردو اسپیکنگ اکژیت میں ہیں ملا کر ایک وحدت کی تشکیل دی جائے۔ یہ وحدت ایک حد تک خودمختار ہو اور باقی پاکستان سے کنفیڈریشن کا تعلق ہو یعنی وفاق کے پاس دفاع، خارجہ پالیسی اور چند دیگر اہم معاملات ہوں اور باقی تمام جناح پور خود رکھے۔ پاکستان کی افرادی قوت جناح پور میں ایک ورک پرمٹ کے اجرا کے بعد ملازمت و رہائش کی اہل ہو۔ شاید جناح پور ہی محمد علی جناح کے پاکستان کی آصل تعیبر ہو۔"
 
مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی طور پر بااختیار بنایا جائے، اس کے ساتھ احتساب اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کے اشاریوں کے مطابق کراچی کا شمار دنیا میں رہنے کے سب سے کم قابل یعنی بدترین شہروں میں ہوتا ہے۔ جب کہ میلبورن رہنے کے لیے بہترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس اسکورنگ میں شہری سہولتوں کی دستیابی کے ساتھ امن عامہ کی صورتحال کا بھی بہت دخل ہے۔ سیاسی استحکام، طبی سہولتوں کی فراہمی، ثقافتی سرگرمیاں، ماحولیاتی پائیداری، تعلیم اور انفرااسٹرکچر اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ظاہر ہے ہماری خواہش ہوگی کہ کراچی کا شمار بھی دنیا کے بہترین شہروں میں ہو۔ اس کے لیے مقامی حکومت کا فعال اور بااختیار ہونا بہت ضروری ہے، مگر چند روز قبل ایک پروگرام میں منتخب نمایندوں کو یہ کہتے ہوئے سنا:
’’کونسلر گٹر کا ڈھکن لگانے کا بھی اختیار نہیں رکھتا‘‘
’’واٹر بورڈ سٹی گورنمنٹ کے پاس نہیں ہے‘‘
’’کچرا اٹھانے والا عملہ ہمارے ماتحت نہیں ہے‘
۔
۔
یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں لیکن ان میں غریبوں کا کوئی ذکر نہیں، جنھیں اٹھا کر شہر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور جو دو تین گھنٹے بسوں میں دھکے کھا کر کام کی جگہ پر پہنچتے ہیں کیونکہ آج تک کوئی بھی حکومت پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں بناسکی ہے۔ وہ بنیادی سہولتوں سے محروم کچی آبادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ اشرافیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ متذکرہ بالا کوئی بھی کام ان غریب محنت کشوں کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غربت انسانوں پر تشدد کی بدترین شکل ہے اور سماجی انصاف کے بغیر نہ امن قائم ہوگا اور نہ ترقی ہوگی
[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, NafeesWebNaskhRegular]کراچی کے مسائل - ایکسپریس اردو[/FONT]​
 
یک محرومی سیاسی نوعیت کی ہے۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کہ سندھ کا وزیراعلیٰ کبھی اردو سپیکنگ آبادی سے نہیں ہوسکتا ۔ آخر کیوں ؟ جواب کسی کو معلوم نہیں۔ حیرت اس پر ہے کہ فوجی ڈکٹیٹروں کے دور میں بھی سندھ کا وزیراعلیٰ اردو بولنے والے کو نہیں بنایا جاتارہا۔ علی محمد مہر سے لے کر ڈاکٹر ارباب رحیم تک وزیراعلیٰ بنے رہے، مگر یہ منصب کراچی کے کسی اردو سپیکنگ کو نہیں ملا، حتیٰ کہ قومی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کسی اردو سپیکنگ تک کو یہ اعزاز نہیں بخشا گیا۔ سرائیکیوں کے ساتھ بھی کئی زیادتیاں ہوئیں، مگر سرائیکی علاقہ کے سیاستدان بہرحال وزارت اعلیٰ پر فائز رہے ۔ ہزارہ سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگی قیادت کے پی کے میں وزارت اعلیٰ چلا چکی ہے۔اردو سپیکنگ آؓبادی کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا۔ حد یہ ہے کہ پچھلے تین چار عشروں سے عوامی مطالبے کے باوجودحیدرآباد شہر میں یونیورسٹی نہیں بن سکی ۔ جامشورہ میں دو تین یونیورسٹیاں موجود ہیں، جہاں ایک زمانے میں تو اردو سپیکنگ طلبہ کے لئے پڑھنا مشکل کر دیا گیا تھا، تاہم حیدرآباد جتنے بڑے شہر میں بڑی سرکاری یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی۔ اس کی حالانکہ کوئی دلیل نہیں تھی۔ جامشورہ میں یونیورسٹیوں کے ہوتے ہوئے بھی حیدرآباد شہر کے اندر یونیورسٹی قائم ہوسکتی تھی۔ ایسا مگر نہیں ہوسکا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔اس لئے محرومیاں تو موجود رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مہاجر شناخت پر اصرار بھی ہوا اور مہاجر قومیت کی بات بھی کی گئی۔ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو ایک نعرہ تو دیا، مہاجر شناخت ضرور ان کی مستحکم ہوئی، مگر عملی طور پر ملا کچھ نہیں۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین نے مہاجروں کا بدترین جذباتی استحصال کیا۔کراچی جیسے روشنیوں کے شہر کو تباہ کر دیا،اس کی پہچان ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور سٹریٹ کرائم بن گیا۔ مہاجروں کی ایک پوری نسل برباد ہوگئی اور ان کاپاکستان بھر میں منفی امیج بنا دیا۔اس کی تمام تر ذمہ داری الطاف حسین پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے سیاسی بارگیننگ کے ذریعے اپنے اور اپنے مخصوص ٹولے کے لئے مفادات لئے ، کراچی ، حیدرآباد اور شہری سندھ کو نظرانداز کر - See more at: Roznama Dunya: کالم اور مضامین :- عامر خاکوانی:- مہاجر قومیت اور محرومیوں کا ایشو
 
16782_36308724.jpg
 
بلی کو کہہ رہے ہیں کہ چھیچھڑے نہ کھانے کا قانون بناوے یا دوسری بلی کو بھی برابر کھلاوے
یہ نہیں ہوسکتا

جتنا دبائیں گے قوم اتنا ہی ابھرے گی۔ موجودہ حالات اگرچہ سخت ہیں مگر مہاجر قوم کے مستقبل کے لیے سودمند ہیں۔مہاجروں کو قومی دھارے سے الگ کرنا دراصل ان کے لیے نئی راہ ہموار کرنا یے۔
 
Top