ایچ اے خان
معطل
کوٹہ سسٹم کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے
نجمہ عالم ایکسپریس
1973 کا بنا ہوا کوٹہ سسٹم اج 2016 تک رائج ہے۔ پاکستان میں ہر انسان کو بنیادی حق ہے برابری کا۔ اس دنیا میں ہر انسان برابرہے صرف سندھ میں نہیں۔ مہاجر قوم کو اس دوران تیسرے درجہ کا شہری بنادیا گیا ہے۔ تعلیم روزگار اور کاروبار ہر چیز پر بندش لگادی گئی ہے۔ قوم پر اپنے ایجنٹز مسلط کیے گئے جنھوں نے "منزل نہیں رہنما چاہیے" کے نعرہ لگا کر قوم کو گمراہ کیا۔ قصور صرف یہ تھا کہ مہاجرقوم پاکستان بنانے کی ذمہ دار ہے۔ اس جرم کی سزا نسلوں تک کو دی گئی۔
اب کوٹہ سسٹم مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس نسلوں کو کیا ہوگا جو 73 سے لیکر 2016 تک محرومی کا شکار رہی؟
کچھ عرصہ پہلے یہ بات کی تھی مگر اب یہ سب کو سامنے نظر ہی ارہا ہے
"
میرا خیال ہے کہ اب وقت اگیا ہے کہ کراچی، حیدراباد، سکھر اور سندھ کے وہ علاقے جہاں اردو اسپیکنگ اکژیت میں ہیں ملا کر ایک وحدت کی تشکیل دی جائے۔ یہ وحدت ایک حد تک خودمختار ہو اور باقی پاکستان سے کنفیڈریشن کا تعلق ہو یعنی وفاق کے پاس دفاع، خارجہ پالیسی اور چند دیگر اہم معاملات ہوں اور باقی تمام جناح پور خود رکھے۔ پاکستان کی افرادی قوت جناح پور میں ایک ورک پرمٹ کے اجرا کے بعد ملازمت و رہائش کی اہل ہو۔ شاید جناح پور ہی محمد علی جناح کے پاکستان کی آصل تعیبر ہو۔"
جو کام سیاستدانوں کے کرنے کا تھا اس پر ان کے منہ پر سیاسی مصلحت کے تالے پڑے رہے مگر جو ذاتی مفاد اور سیاسی بازی گری سے لاتعلق ہیں انھوں نے وہ کام کردیا، یعنی ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے کوٹہ سسٹم کو کراچی اور سندھ کی بدامنی کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے، اہلیت پر ملازمتیں دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ تو اب ہر ایک کو یاد آیا کہ سندھ میں تقریباً چالیس سال سے یہ غیر منصفانہ نظام رائج ہے۔ اس سلسلے میں سیاستدانوں کی مصلحت کا تو کچھ جواز بنتا ہے مگر صحافت کا نہیں۔ آج جو صحافی اس موضوع پر (مجھ سمیت) لکھ رہے ہیں انھیں پہلے کیوں خیال نہ آیا؟ مگر خیر دیر سے ہی سہی اور کسی کی بھی وجہ سے اس موضوع پر غور و فکر کا آغاز تو ہوا۔
۔۔
۔۔
سیاستدان تو اپنے مفاد کے پیش نظر اس انداز فکر کو اپنانے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے مگر ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے جو بات کہی ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے دکھاوے کی کارکردگی کے بجائے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں کیونکہ بیرونی دشمنوں کا مقابلہ اندرون ملک امن و امان اور ملی یکجہتی کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام صوبوں کے عوام کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں اور کوئی بھی احساس محرومی یا احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔۔
کوٹہ سسٹم کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے۔۔
۔۔
سیاستدان تو اپنے مفاد کے پیش نظر اس انداز فکر کو اپنانے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے مگر ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے جو بات کہی ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے دکھاوے کی کارکردگی کے بجائے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں کیونکہ بیرونی دشمنوں کا مقابلہ اندرون ملک امن و امان اور ملی یکجہتی کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام صوبوں کے عوام کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں اور کوئی بھی احساس محرومی یا احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔۔
نجمہ عالم ایکسپریس
1973 کا بنا ہوا کوٹہ سسٹم اج 2016 تک رائج ہے۔ پاکستان میں ہر انسان کو بنیادی حق ہے برابری کا۔ اس دنیا میں ہر انسان برابرہے صرف سندھ میں نہیں۔ مہاجر قوم کو اس دوران تیسرے درجہ کا شہری بنادیا گیا ہے۔ تعلیم روزگار اور کاروبار ہر چیز پر بندش لگادی گئی ہے۔ قوم پر اپنے ایجنٹز مسلط کیے گئے جنھوں نے "منزل نہیں رہنما چاہیے" کے نعرہ لگا کر قوم کو گمراہ کیا۔ قصور صرف یہ تھا کہ مہاجرقوم پاکستان بنانے کی ذمہ دار ہے۔ اس جرم کی سزا نسلوں تک کو دی گئی۔
اب کوٹہ سسٹم مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس نسلوں کو کیا ہوگا جو 73 سے لیکر 2016 تک محرومی کا شکار رہی؟
کچھ عرصہ پہلے یہ بات کی تھی مگر اب یہ سب کو سامنے نظر ہی ارہا ہے
"
میرا خیال ہے کہ اب وقت اگیا ہے کہ کراچی، حیدراباد، سکھر اور سندھ کے وہ علاقے جہاں اردو اسپیکنگ اکژیت میں ہیں ملا کر ایک وحدت کی تشکیل دی جائے۔ یہ وحدت ایک حد تک خودمختار ہو اور باقی پاکستان سے کنفیڈریشن کا تعلق ہو یعنی وفاق کے پاس دفاع، خارجہ پالیسی اور چند دیگر اہم معاملات ہوں اور باقی تمام جناح پور خود رکھے۔ پاکستان کی افرادی قوت جناح پور میں ایک ورک پرمٹ کے اجرا کے بعد ملازمت و رہائش کی اہل ہو۔ شاید جناح پور ہی محمد علی جناح کے پاکستان کی آصل تعیبر ہو۔"