کوکب آفندی :::: تُجھے ڈُھونڈ لے جو وہی کامراں ہے

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
مرزا کوکب آفندی
تُجھے ڈُھونڈ لے جو وہی کامراں ہے
اِک آواز چُپکے سے دے دے کہاں ہے
زمیں ہے وہاں اور نہ یہ آسماں ہے
جہاں تُو ہی تُو ہے وہی لامکاں ہے
تمنّاؤں اور حسرتوں میں رواں ہے
یہ عمرِ دو روزہ بھی اِک کارواں ہے
سمجھنا نہ، صیّاد یہ آسماں ہے
نشیمن جو پھُونکا ہے اُس کا دھواں ہے
اُجاڑا ہے گھر اپنا جوشِ جنوُں میں
جو تھا رشکِ جنّت، وہ ہُو کا مکاں ہے
تِرے عِشق میں محویّت کا یہ عالم !
قفس کو ہی سمجھے کہ یہ آشیاں ہے
کہو تو سُنادوں یہ ہے روزِ محشر
تُمھاری جفاؤں کی جو داستاں ہے
سُنیں گے وہ کیا دردِ دل کا فسانہ
جنہیں آہ کرنا بھی میرا گِراں ہے
ہمِیں ایک بدلے ہیں اُلفت کے مارے
زمِیں ہے وہی اور وہی آسماں ہے
جُنونِ محبّت نے دُنیا بدل دی
اب اُن کی زباں پر مِری داستاں ہے
بُڑھاپے میں کوکب کے انداز دیکھے !
جوانی کے تیور ہیں، اب تک جواں ہیں
* مرزا کوکب آفندی
* پورا نام : سلیماں مرزا کوکب آفندی اکبرآبادی​
جناب بزم آفندی صاحب کے صاحبزادے اور جناب نجم آفندی صاحب کے برادرِخُرد تھے​
مجموعہ کلام : "چراغ بزم کا ہُوں"​
 
Top