فرخ منظور
لائبریرین
کوہِ ندا
اَیہُّاالنّاس چلو کوہ ِ ندا کی جانب
کب تک آشفتہ سری ہو گی نئے ناموں سے
تھک چکے ہو گے خرابات کے ہنگاموں سے
ہر طرف ایک ہی انداز سے دن ڈھلتے ہیں
لوگ ہر شہر میں سائے کی طرح چلتے ہیں
اجنبی خوف کو سینوں میں چُھپائے ہوئے لوگ
اپنے آسیب کے تابوت اُٹھائے ہوئے لوگ
ذات کے کرب میں ، بازار کی رُسوائی میں
تم بھی شامل ہو اس انبوہ کی تنہائی میں
تم بھی ایک بادیہ پَیما ہو خلا کی جانب
خود ہی سوچو کہ ہر اک در سے ملا کیا آخِر
کار آمد ہوئی فریاد کہ ناکام ہُوئی
اپنی گلیوں میں سے کس کس نے ستایا تم کو
دشت ِ غربت میں کہاں صبح ، کہاں شام ہوئی
کس نے سوئے ہوئے اسبابِ فغاں کو چھیڑا
کس نے دُکھتے ہوئے تارِ رگ ِ جاں کو چھیڑا
کس نے سمجھائیں تمہیں عشرت ِ غم کی باتیں
کون لایا تمہیں اندوہ ِ وفا کی جانب
اب کدھر جاؤ گے ، کیا اپنا وطن کیا پردیس
ہر طرف ایک سی سَمتوں کا نشاں مِلتا ہے
اپنی آواز بکھر جاتی ہے آوازوں میں
اپنا پندار ملول و نگراں ملتا ہے
پھونک کر خود کو نظر آتی ہے احساس کی راکھ
وقت کی آنچ پہ لمحوں کا دھواں ملتا ہے
راستے کھوئے چلے جاتے ہیں سناٹوں میں
مشعلیں خودبخود آتی ہیں ہوا کی جانب
کب تک افسانہ و افسوں کی حشیشی راتیں
طلب ِ جنس و تلاش ِ شب ِ امکاں کب تک
ذہن کو کیسے سنبھالے گی بدن کی دیوار
درد کا بوجھ اٹھائے گا شبستاں کب تک
دیر سے نیند کو ترسی ہوئی آنکھوں کے لیے
خواب آور نشۂ عارض و مژگاں کب تک
کتنے دن اور پُکارے گی تمہیں جسم کی پیاس
نغمہ و غمزہ و انداز و ادا کی جانب
رات بھر جاگتے رہتے ہیں دکانوں کے چراغ
دل وہ سنسان جزیرہ کہ بجھا رہتا ہے
لیکن اس بند جزیرے کے ہر اک گوشے میں
ذات کا باب ِ طلسمات کھلا رہتا ہے
اپنی ہی ذات میں پستی کے کھنڈر ملتے ہیں
اپنی ہی ذات میں اک کوہ ِ ندا رہتا ہے
صرف اِس کوہ کے دامن میں میسر ہے نجات
آدمی ورنہ عناصر میں گِھرا رہتا ہے
اور پھر ان سے بھی گھبرا کے اٹھاتا ہے نظر
اپنے مذہب کی طرف اپنے خدا کی جانب
اَیہُّاالنّاس چلو کوہ ِ ندا کی جانب
ہانو لُولُو (ہوائی)
(مصطفیٰ زیدی ۔از کوہِ ندا)
اَیہُّاالنّاس چلو کوہ ِ ندا کی جانب
کب تک آشفتہ سری ہو گی نئے ناموں سے
تھک چکے ہو گے خرابات کے ہنگاموں سے
ہر طرف ایک ہی انداز سے دن ڈھلتے ہیں
لوگ ہر شہر میں سائے کی طرح چلتے ہیں
اجنبی خوف کو سینوں میں چُھپائے ہوئے لوگ
اپنے آسیب کے تابوت اُٹھائے ہوئے لوگ
ذات کے کرب میں ، بازار کی رُسوائی میں
تم بھی شامل ہو اس انبوہ کی تنہائی میں
تم بھی ایک بادیہ پَیما ہو خلا کی جانب
خود ہی سوچو کہ ہر اک در سے ملا کیا آخِر
کار آمد ہوئی فریاد کہ ناکام ہُوئی
اپنی گلیوں میں سے کس کس نے ستایا تم کو
دشت ِ غربت میں کہاں صبح ، کہاں شام ہوئی
کس نے سوئے ہوئے اسبابِ فغاں کو چھیڑا
کس نے دُکھتے ہوئے تارِ رگ ِ جاں کو چھیڑا
کس نے سمجھائیں تمہیں عشرت ِ غم کی باتیں
کون لایا تمہیں اندوہ ِ وفا کی جانب
اب کدھر جاؤ گے ، کیا اپنا وطن کیا پردیس
ہر طرف ایک سی سَمتوں کا نشاں مِلتا ہے
اپنی آواز بکھر جاتی ہے آوازوں میں
اپنا پندار ملول و نگراں ملتا ہے
پھونک کر خود کو نظر آتی ہے احساس کی راکھ
وقت کی آنچ پہ لمحوں کا دھواں ملتا ہے
راستے کھوئے چلے جاتے ہیں سناٹوں میں
مشعلیں خودبخود آتی ہیں ہوا کی جانب
کب تک افسانہ و افسوں کی حشیشی راتیں
طلب ِ جنس و تلاش ِ شب ِ امکاں کب تک
ذہن کو کیسے سنبھالے گی بدن کی دیوار
درد کا بوجھ اٹھائے گا شبستاں کب تک
دیر سے نیند کو ترسی ہوئی آنکھوں کے لیے
خواب آور نشۂ عارض و مژگاں کب تک
کتنے دن اور پُکارے گی تمہیں جسم کی پیاس
نغمہ و غمزہ و انداز و ادا کی جانب
رات بھر جاگتے رہتے ہیں دکانوں کے چراغ
دل وہ سنسان جزیرہ کہ بجھا رہتا ہے
لیکن اس بند جزیرے کے ہر اک گوشے میں
ذات کا باب ِ طلسمات کھلا رہتا ہے
اپنی ہی ذات میں پستی کے کھنڈر ملتے ہیں
اپنی ہی ذات میں اک کوہ ِ ندا رہتا ہے
صرف اِس کوہ کے دامن میں میسر ہے نجات
آدمی ورنہ عناصر میں گِھرا رہتا ہے
اور پھر ان سے بھی گھبرا کے اٹھاتا ہے نظر
اپنے مذہب کی طرف اپنے خدا کی جانب
اَیہُّاالنّاس چلو کوہ ِ ندا کی جانب
ہانو لُولُو (ہوائی)
(مصطفیٰ زیدی ۔از کوہِ ندا)