بہت شکریہ جناب۔
یہ غزل نور لکھنوی کی لکھی ہوئی ہے اور فلم پرچھائیں 1952 میںریلیز ہوئی تھی۔
کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن پہلو بدل بدل کے
رہتے ہیں دل کے دل میں، ارماںمچل مچل کے
تڑپائے گا کہاںتک اے دردِ دل بتا دے
رسوا کہیں نہ کر دے آنسو نکل نکل کے
یہ خواب پر جو چمکے، ذرے نہ ان کو سمجھو
پھینکا گیا ہے دل کا شیشہ کچل کچل کے
الفت کی ٹھوکروںسے آخر نہ بچ سکا دل
جتنے قدم اٹھائے ہم نے سنبھل سنبھل کے