لتا کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن پہلو بدل بدل کے۔ لتا منگیشکر

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔
یہ غزل نور لکھنوی کی لکھی ہوئی ہے اور فلم پرچھائیں 1952 میں‌ریلیز ہوئی تھی۔

کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن پہلو بدل بدل کے
رہتے ہیں دل کے دل میں، ارماں‌مچل مچل کے

تڑپائے گا کہاں‌تک اے دردِ دل بتا دے
رسوا کہیں نہ کر دے آنسو نکل نکل کے

یہ خواب پر جو چمکے، ذرے نہ ان کو سمجھو
پھینکا گیا ہے دل کا شیشہ کچل کچل کے

الفت کی ٹھوکروں‌سے آخر نہ بچ سکا دل
جتنے قدم اٹھائے ہم نے سنبھل سنبھل کے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔
یہ غزل نور لکھنوی کی لکھی ہوئی ہے اور فلم پرچھائیں 1952 میں‌ریلیز ہوئی تھی۔

کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن پہلو بدل بدل کے
رہتے ہیں دل کے دل میں، ارماں‌مچل مچل کے

تڑپائے گا کہاں‌تک اے دردِ دل بتا دے
رسوا کہیں نہ کر دے آنسو نکل نکل کے

یہ خواب پر جو چمکے، ذرے نہ ان کو سمجھو
پھینکا گیا ہے دل کا شیشہ کچل کچل کے

الفت کی ٹھوکروں‌سے آخر نہ بچ سکا دل
جتنے قدم اٹھائے ہم نے سنبھل سنبھل کے


واہ واہ فاتح صاحب بہت ہی خوب۔ میں اس گانے کے شاعر کی عرصے سے تلاش میں تھا۔ اگر آپ کے پاس کوئی انسائکلو پیڈیا ہاتھ آگیا ہے تو براہِ مہربانی اس گیت کے نغمہ نگار کے بارے میں بھی کوئی معلومات فراہم کریں ۔ یہ ایک نان رلیز گیت ہے۔ بہت شکریہ!
 

فاتح

لائبریرین

واہ واہ فاتح صاحب بہت ہی خوب۔ میں اس گانے کے شاعر کی عرصے سے تلاش میں تھا۔ اگر آپ کے پاس کوئی انسائکلو پیڈیا ہاتھ آگیا ہے تو براہِ مہربانی اس گیت کے نغمہ نگار کے بارے میں بھی کوئی معلومات فراہم کریں ۔ یہ ایک نان رلیز گیت ہے۔ بہت شکریہ!

حضور! میں‌تو آپ کے مرسلہ ربط پر سے سن سن کر لکھ رہا ہوں اور شاعر کا نام ایک ویب سائٹ پر مل گیا تھا۔ سرِ محفل رسوا کر دیا نا آخر;)
 
Top