کٹی کس طرح اپنی میکدے میں شب، خدا جانے

نمرہ

محفلین
کٹی کس طرح اپنی میکدے میں شب، خدا جانے
کسی کا نام سن کر ٹوٹتے جاتے تھے پیمانے

جنوں کی محفلیں اپنی، خرد کی بستیاں اپنی
مرے دشت غرابت میں نہ دیوانے نہ فرزانے

گریباں پھاڑ کر صحرا کو چل نکلیں مجھے لے کر
خلوص دل سے آئیں حضرت ناصح جو سمجھانے

کہاں کس سمت سے اب دیکھیے ان کا جواب آئے
فلک کے پار جاتے ہیں زمیں زادوں کے افسانے

کہاں بدلے ہیں دل نے طور اپنے لاکھ کہنے پر
وہی اپنائیت کی خو، وہی انداز بیگانے

دیار غیر میں اور اس میں آخر فرق ہی کیا ہے
جب اپنے شہر میں ہم کو کوئی جانے نہ پہچانے

پلٹ کر گھر کو آئے ہم مگر غم کھائے جاتا ہے
ہمیں اب ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ پتھر، وہ ویرانے

ابھی تک اپنا قصہ استعاروں ہی میں کہتے ہیں
وہی لیلی کی تصویریں، وہی مجنوں کے افسانے​
 
کٹی کس طرح اپنی میکدے میں شب، خدا جانے
کسی کا نام سن کر ٹوٹتے جاتے تھے پیمانے

جنوں کی محفلیں اپنی، خرد کی بستیاں اپنی
مرے دشت غرابت میں نہ دیوانے نہ فرزانے

گریباں پھاڑ کر صحرا کو چل نکلیں مجھے لے کر
خلوص دل سے آئیں حضرت ناصح جو سمجھانے

کہاں کس سمت سے اب دیکھیے ان کا جواب آئے
فلک کے پار جاتے ہیں زمیں زادوں کے افسانے

کہاں بدلے ہیں دل نے طور اپنے لاکھ کہنے پر
وہی اپنائیت کی خو، وہی انداز بیگانے

دیار غیر میں اور اس میں آخر فرق ہی کیا ہے
جب اپنے شہر میں ہم کو کوئی جانے نہ پہچانے

پلٹ کر گھر کو آئے ہم مگر غم کھائے جاتا ہے
ہمیں اب ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ پتھر، وہ ویرانے

ابھی تک اپنا قصہ استعاروں ہی میں کہتے ہیں
وہی لیلی کی تصویریں، وہی مجنوں کے افسانے​
خوبصورت خوبصورت
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ ! کیا اچھی غزل ہے نمرہ صاحبہ! بہت خوب!!

ابھی تک اپنا قصہ استعاروں ہی میں کہتے ہیں
وہی لیلی کی تصویریں، وہی مجنوں کے افسانے

کیا بات ہے ! کیا اچھا کہا ہے !! سلامت رہیں !
 
Top