کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح
کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح
اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر
چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح
یوں نہ تھا بن کے نصیب آج مرے ساتھ رہا
اس نے دھوکا بھی دیا مجھ کو مقدر کی طرح

۔۔۔ فی الحال ٹیگ نہیں کر رہا،اگر کچھ بتانا ہے تو اس کی بحر بتائی جائے، معنوی اعتبار سے اس پر غور، اضافہ اور تبدیلیاں پہلے میں کرکے اس کے بعد ٹیگ کروں گا، تاکہ زیادہ مغز ماری نہ کرنی پڑے ۔۔۔
شاہدشاہنواز خان۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح
کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح
اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر
چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح
یوں نہ تھا بن کے نصیب آج مرے ساتھ رہا
اس نے دھوکا بھی دیا مجھ کو مقدر کی طرح

۔۔۔ فی الحال ٹیگ نہیں کر رہا،اگر کچھ بتانا ہے تو اس کی بحر بتائی جائے، معنوی اعتبار سے اس پر غور، اضافہ اور تبدیلیاں پہلے میں کرکے اس کے بعد ٹیگ کروں گا، تاکہ زیادہ مغز ماری نہ کرنی پڑے ۔۔۔
شاہدشاہنواز خان۔۔
شاہد خان صاحب!
میرے خیال میں، اس میں آپ اضافہ تبدیلیاں یا غور کر کے غزل مکمل کرنے اور اس سے مطمئن ہونے کے بعد یہاں پیش کرتےتو صحیح ہوتا(جیسا کہ آپ کا ارادہ ہے)۔
اس طرح کرنے سے، یا خود سے نبرد آزمائی سے حوصلہ اور اعتماد کو تقویت ملے گی ، اورچند ایام اسے، رکھ رکھ کے پرکھنے سے بہت سی چیزوں
پر،اور آپ کواپنے،از خود اصلاح پر قدرت حاصل ہو جائے گی، کوشش یہ کریں کے مفہوم اور خیال واضح ہو، کوئی ابہام نہ رہے، اور مصرعوں کا باہمی ربط بھی ضروری ہے
مثال کے طور پر مطلع

کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح

کا پپلا مصرع بہت خوب ہے کے اس سے اشارہ و کنایہ میں یہ مطلب با آسانی حاصل ہوتا ہے کہ
کہ پہلے، میرے اڑنے کی صلاحیت (میرے بلندی اور سرفرازی کے جوہر یا اسلوب) سلب کئے اب
یا آج تو ہاتھ بھی کٹ گئے یعنی ہم تو اب بنیادی کاموں سے بھی گئے

اب دوسرا مصرع کا "دے گیا " بچھڑنے، یا چھوڑ جانے کا مفہوم دیتا ہے
آپ کسی کے متعلق تو کہہ سکتے ہیں کہ کیسی یادیں، یا نشانی دے گیا ، غم، دکھ دے گیا وغیرہ

آپ جب غور کریں گے اس پر تو کوشش کریں کہ لکھے سے قاری پر مفہوم آسانی سے، یا ذرا کوشش سے
ہی ظاہرتو ہو، اور اس سے کوئی اور مطلب تو اخذ نہیں ہو رہا ہے

ذیل میں، مصرعوں میں سرسری ترمیم آپ کو سمجھانے کے لئے کر رہا ہوں اسے اصلاح نہیں دوستانہ مشورہ ہی لیں

کٹ گئے ہاتھ مرے آج ، مرے پر کی طرح
دل بھی بیگانہ ہوا جاتا ہے اب سر کی طرح

کوئی صورت ہے محبت کی، نہ چاہت کی جھلک
گھر ہُوا ہے یہ مکاں، اب نہ رہا گھر کی طرح

یوں ہی سرسری جو ذہن میں صورت بنی وہی لکھ دی ہے!
تمام اشعار پر آپ ذرا غور اور کوشش کریں گے تواس سے بہتر لکھ لیں گے

بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں
 
کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح​
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح​
کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک​
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح​

واہ واہ واہ​
 

الف عین

لائبریرین
کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح
÷÷میرے خیال میں دل کا دغا دینا بھی درست ہے، اس میں کوئی خامی نہیں۔ لیکن طارق نے اس پر توجہ نہیں دی کہ پھر شعر کا مطلب کیا ہوا؟ دونوں مصرعوں میں ربط؟ وقوعے کی ترتیب یوں ہے کہ پہلے سر رخصت ہوا، پھر دل گیا، اس کے بعد پر اور پھر ہاتھ؟؟؟

کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح
÷÷مجھے تو یہ صورت ہی بہتر نظر آ رہی ہے۔

اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر
چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح
÷÷درست
یوں نہ تھا بن کے نصیب آج مرے ساتھ رہا
اس نے دھوکا بھی دیا مجھ کو مقدر کی طرح
÷÷مفہوم؟
 
کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح
÷÷میرے خیال میں دل کا دغا دینا بھی درست ہے، اس میں کوئی خامی نہیں۔ لیکن طارق نے اس پر توجہ نہیں دی کہ پھر شعر کا مطلب کیا ہوا؟ دونوں مصرعوں میں ربط؟ وقوعے کی ترتیب یوں ہے کہ پہلے سر رخصت ہوا، پھر دل گیا، اس کے بعد پر اور پھر ہاتھ؟؟؟

کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح
÷÷مجھے تو یہ صورت ہی بہتر نظر آ رہی ہے۔

اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر
چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح
÷÷درست
یوں نہ تھا بن کے نصیب آج مرے ساتھ رہا
اس نے دھوکا بھی دیا مجھ کو مقدر کی طرح
÷÷مفہوم؟

عمدہ۔!!!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مجھے اس غزل میں سوائے اس کے قافیے اور ردیف کے اور کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا، جب میں لکھ رہا تھا اور یہ فی البدیہہ لکھا ہے، اس لیے اس پر پہلے میں کام کرنا چاہتا تھا ، لیکن یہ خوب رہی کہ آپ نے اس پر اچھی خاصی بحث کر ڈالی، میرے روکنے کے باوجود۔۔۔ خیر۔۔۔ کوئی جرم نہیں یہ بھی۔۔۔ اب تک آپ کی آراء سے جو میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ تین اشعار تو پاس ہوگئے:
کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح
کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح
اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر
چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح


بحر ہے: فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ۔۔۔ کیا اس کا اشاری نظام یہ ہے:
2 1 2 2 2 2 2 2 2 2 2 2
 
مجھے اس غزل میں سوائے اس کے قافیے اور ردیف کے اور کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا، جب میں لکھ رہا تھا اور یہ فی البدیہہ لکھا ہے، اس لیے اس پر پہلے میں کام کرنا چاہتا تھا ، لیکن یہ خوب رہی کہ آپ نے اس پر اچھی خاصی بحث کر ڈالی، میرے روکنے کے باوجود۔۔۔ خیر۔۔۔ کوئی جرم نہیں یہ بھی۔۔۔ اب تک آپ کی آراء سے جو میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ تین اشعار تو پاس ہوگئے:
کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح
کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح
اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر
چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح


بحر ہے: فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ۔۔۔ کیا اس کا اشاری نظام یہ ہے:
2 1 2 2 2 2 2 2 2 2 2 2
2122، 1122، 1122، 112

کسی بھی11 کو 2 بنایا جاسکتا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کچھ اور سطور ہیں، اس میں کیا غلط ہے ، کیا درست، یہ جاننا تھا:
اس کا چہرہ تروتازہ تھا گلِ تر کی طرح
اس کی آنکھیں تھیں کہ وسعت میں سمندر کی طرح

ہیں تو نالے یہ ہمارے پہ گئے عرش تلک
ہم فقیری میں بھی پھرتے ہیں تونگر کی طرح
جس کو دنیا سے چھپانا تھا، اسی میں گم تھے
مفلسی تان لی ہم نے کسی چادر کی طرح
مجھ کو پاتا ہے تو کھل کر وہ دھڑکتا ہی نہیں
بند ہے دل بھی ترا مجھ پہ ترے در کی طرح
سب ہوئے جان کے انگشت بدنداں شاہد
ایک ہی شخص تھا لڑتا تھا جو لشکر کی طرح
 

الف عین

لائبریرین
میری رائے۔۔
1۔ آمکھیں وسیع کہاں ہوتی ہیں؟
2۔ ہیں تو نالے یہ ہمارے پہ گئے عرش تلک۔ رواں نہیں
3، 4۔ درست
5۔ بہتر ہو کہ دوسرے مصرع میں ’تھا جو‘ کو ’رہا‘ لر دیا جائے۔
ایک ہی شخص تھا لڑتا رہا لشکر کی طرح
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔۔۔ تو اس کی فائنل صورت یہ ہوئی۔۔۔۔

اس کا چہرہ تروتازہ تھا گلِ تر کی طرح
اس کی آنکھیں تھیں کہ گہری تھیں سمندر کی طرح

کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح
دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح

کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک
مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح

اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر
چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح

ہیں تو نالے ہی مگر عرش تلک جاتے ہیں
ہم فقیری میں بھی پھرتے ہیں تونگر کی طرح

جس کو دنیا سے چھپانا تھا، اسی میں گم تھے
مفلسی تان لی ہم نے کسی چادر کی طرح

مجھ کو پاتا ہے تو کھل کر وہ دھڑکتا ہی نہیں
بند ہے دل بھی ترا مجھ پہ ترے در کی طرح

سب ہوئے جان کے انگشت بدنداں شاہد
ایک ہی شخص تھا ،لڑتا رہا لشکر کی طرح

کیا یہ واقعی فائنل ہے یا کچھ کمی اب بھی باقی ہے؟
 
Top