حسن محمود جماعتی
محفلین
جیوری ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائی کہ آیا مصباح الحق اب تک کے ملک کے سب سے کامیاب کپتان ہیں لیکن یہ بحث کسی حتمی نتیجے پر ختم نہیں ہوتی۔ ’کیا کبھی ہوئی؟‘ ، یہی بات اب سے چند ہفتوں قبل پاکستان کرکٹ میں کپتانوں کے اتار چڑھاؤ پر بحث کے دوران ہم کہہ چکے ہیں۔
اب جبکہ مصباح الحق انفرادی حیثیت میں سب سے زیادہ میچوں میں ملک کے قیادت کرنے والے کپتان بن چکے ہیں(بچ بچا کر؟) تو وقت آ گیا ہے کہ اس بحث کی جانب واپس چلا جائے۔ لیکن اس کو ایک فلسفیانہ بحث تک محدود رکھا جائے جہاں اس کا مقصد تنگ نظر دلائل کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش میں دروازے بند کرنے کے بجائے سوچ کے نئے در کھولنا ہے۔
حالیہ وقتوں میں مصباح کے دور کا عمران سے موازنہ کرنے کا فیشن رہا ہے لیکن دراصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک طرف عمران ہیں جو ملک کی عظیم ہستی تھے اور ہیں جبکہ ان کا شمار کرکٹ کے میدان میں اترنے والے عظیم ترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے چاہے اس کی وجہ جو بھی ہو لیکن انہوں نے خود کو اس افسانوی کردار میں تبدیل کیا جس نے اسی طرح افسانوی کردار کے حامل 'دیوار سے لگے شیروں' کے نام سے مشہور دھڑے کو یکجا کر کے آسٹریلیا میں 1992 کے ورلڈ کپ میں فتح سے ہمکنار کرایا۔
ملک بھر میں پھیلے عمران خان کے پرہجوم شائقین کی آنکھوں میں کرکٹ کی توہین کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے کوئی شخص اس بات کی نشاندہی کرنے کا خطرہ بھی مول لے سکتا ہے کہ یہ کھیل کا چھوٹا ورژن تھا اور یہ فتح اس کامیابی کے برابر تھی جو یونس خان اور ان کی ٹیم نے 2009 میں انگلینڈ میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا ایونٹ جیت کر حاصل کی تھی لیکن اس کیلئے 'چھوٹے خان' کا عظیم ترین کپتان میں شمار نہیں کیا جاتا۔
قومی کپتان کی حیثیت سے مصباح کا مرتبہ اور طویل العمری کے ساتھ انہوں نے جو سنگ میل عبور کیا ہے اس کی اہمیت کو ٹیسٹ کرکٹ کے تناظر میں ہی دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ دونوں فریقین کے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چلیں اعدادوشمار کی روشنی میں ان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہیں۔
انفرادی طور پر کامیابی کا جائزہ لینے سے قبل بہتر یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی سطح پر انجام دیئے جانے والے کارناموں پر پہلے بات کی جائے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ سیریز کے اختتام تک پاکستان 402 ٹیسٹ میچ کھیل چکا ہے، جس میں سے 130 جیتے اور 114 ہارے جبکہ 158 ڈرا یا بے نتیجہ رہے۔
اس لحاظ سے مجموعی طور پر کامیابی کی اوسط 32.33 فیصد رہی اور ہار و جیت کا تناسب 1.14 رہا۔ اگر یہی اعداد و شمار مصباح کے دیکھے جائیں تو 49 ٹیسٹ میں قیادت کرتے ہوئے 24 میں فتح، 14 میں شکست اور 11 میچز ڈرا ہوئے۔ فتوحات کی اوسط 48.97 اور ہار و جیت کا تناسب 1.71 رہا۔ عمران خان کی بات کی جائے تو انہوں نے 48 میچوں میں قیادت کرتے ہوئے 14 فتوحات سمیٹیں جن میں سے آٹھ میں شکست اور 26 میچ ڈرا پر منتج ہوئے۔ فتح کی اوسط 29.16 فیصد جبکہ ہار و جیت کا تناسب 1.75 رہا۔
یہ اعدادوشمار اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مصباح کی فتح کی اوسط قومی اوسط سے 16.64 فیصد زیادہ ہے اور عمران خان کی مذکورہ اوسط قومی اوسط سے بھی 3.17 فیصد کم ہے تو اس لحاظ سے مجموعی طور پر دو عظیم کھلاڑیوں میں 19.81 پوائنٹس کا واضح فرق ہے۔ دونوں کھلاڑیوں کے موازنے اور عمران خان کے حق میں فیصلے کے مقبول رجحان کے برعکس اعدادوشمار کے مطابق دونوں میں شاید ہی کسی چیز کا موازنہ کیا جا سکے۔ مصباح نے باآسانی اسے جیت لیا۔ یقیناً وہ ویسے کرشماتی، خوبرو یا دلکش یا صاف گو نہیں جیسے عمران تھے ۔۔۔۔ کچھ لوگوں کیلئے تو ابھی بھی ہیں لہٰذا مصباح کو دریا دلی دکھاتے ہوئے ہمیشہ دوسرا منصب دیا جاتا ہے۔ دونوں کھلاڑیوں کا ایک ساتھ نام لیا جانا چند لوگوں کی نظر میں مصباح جیسے کھلاڑی کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ تاہم اعدادوشمار اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اور یہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ معاملہ اس سے بالکل الٹ ہونا چاہیے۔
ان اعدادومشار کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔ پھر چاہے بات ناخشگوار ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ محض درست بات کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ عمران کے حق میں اور کن دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ عمران انتہائی دلیر اور جارحانہ کپتان تصور کیے جاتے تھے جو ہار سے نہیں ڈرتے تھے اور میچ کے نتیجے کیلئے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ 402 ٹیسٹ میچوں میں ڈرا کرنے کی اوسط 39.30 فیصد تھی۔ عمران کی قیادت میں ڈرا کی اوسط 54.16 فیصد رہی جبکہ مصباح کے دور میں یہ اوسط 22.14 فیصد رہی جہاں عمران کی اوسط قومی اوسط کے مقابلے میں 14.86 فیصد زیادہ ہے جبکہ مصباح اس پیمانے سے 17.16 فیصد کم ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر فرق 32.02 اوسط کا ہے۔ دونوں کے درمیان موازنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ عوام کے ذہن میں قائم غیر موثر سوچ ہے جس میں جھوٹے دعوے بغیر کسی کوشش کے حقائق کو آسانی سے ہرا دیتے ہیں۔
اعدادوشمار سے قطع نظر، دونوں کھلاڑیوں نے اپنے اپنے ادوار کا آغاز کیا اور اسے برقرار رکھا، اس پر مزید بحث کی جا سکتی ہے۔ 2010 کے دورہ انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد قیادت کا بوجھ مصباح کے مضبوط کاندھوں پر ڈالا گیا۔ عمران خان کو قیادت کا امیدوار بنانا ایک سمجھوتا تھا جس کی وجہ جاوید میانداد کی زیر قیادت کھیلنے والے کھلاڑیوں کی بغاوت تھی جو عظیم بلےک باز کی زیر قیادت کھیلنا اپنی عزت نفس پر کاری ضرب سمجھتے تھے۔
آگے بات کی جائے تو جب سے مصابح کو قیادت سونپی گئی، اس وقت سے اب تک وہ ایک سینئر کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور اس دوران صرف ایک ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا۔ عمران اکثر بیچ منجھدار میں ٹیم کو چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے تھے ۔ ان کی غیر موجودگی میں 29 مواقعوں پر میانداد اور ظہیر عباس میں قیادت کے فرائض انجام دیئے۔ وہ انجریز کا شکار بھی رہے لیکن ان کی اپنی ترجیحات بھی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہوتا تھا کہ اس وقت پاکستان کیلئے کھیلنا ان کی پہلی ترجیح نہیں تھی۔
مصباح نے سسٹم کا احترام کرتے ہوئے نپے تلے پیشہ ورانہ رویے کے ساتھ اس ٹیم کو پروان چڑھایا۔ عمران نے آہنی ہاتھوں کے ساتھ ایسا کیا اور سسٹم کے نام پر ہر چیز کی عوامی سطح پر تضحیک کرتے تھے۔ اور وہ ہمیشہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں بھی درست نہیں تھے۔ کھلاڑیوں کے انتخاب میں غلطی کرنے والے ایک سے زائد ہیں جن کا ذکر کرنا یہاں مقصود نہیں کیونکہ اس معاملے میں ہر کسی کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے دو نام قابل ذکر ہیں اور وہ رمیز راجہ اور منصور اختر کے ہیں کیونکہ اس معاملے کو حل کرنے کیلئے ان کا اپنا ریکارڈ ہی کافی ہے۔ اگر آپ ان کے ٹیسٹ ریکارڈ پر نظر دوڑائیں تو آپ اس معاملے میں مزید بحث نہیں کریں گے۔
اس مباحثے کا مقصد ہرگز کسی پر تنقید کرنا نہیں۔ عمران جو تھے، وہ تھے لیکن عمران خان سے موازنہ کرتے ہوئے مصباح کو اکثر کم تر سمجھے جانے والا رویہ بہت برہم کرتا ہے۔
اگر مصباح کا کسی سے موازنہ کرنا ہی ہے تو انہیں مشتاق محمد جیسے کھلاڑیوں کے مقام پر کھڑا کر کے ان سے موزانہ کیا جانا چاہیے جو عمران کے مقابلے میں زیادہ عظیم کھلاڑی تھے۔ آپ کو شک ہے، ہے ناں؟ ہم اس فلسفیانہ بحث کے اختتام کیلئے اگلی مرتبہ پھر حاضر ہوں گے۔ تب تک انتظار فرمائیں۔
ماخذ
اب جبکہ مصباح الحق انفرادی حیثیت میں سب سے زیادہ میچوں میں ملک کے قیادت کرنے والے کپتان بن چکے ہیں(بچ بچا کر؟) تو وقت آ گیا ہے کہ اس بحث کی جانب واپس چلا جائے۔ لیکن اس کو ایک فلسفیانہ بحث تک محدود رکھا جائے جہاں اس کا مقصد تنگ نظر دلائل کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش میں دروازے بند کرنے کے بجائے سوچ کے نئے در کھولنا ہے۔
حالیہ وقتوں میں مصباح کے دور کا عمران سے موازنہ کرنے کا فیشن رہا ہے لیکن دراصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک طرف عمران ہیں جو ملک کی عظیم ہستی تھے اور ہیں جبکہ ان کا شمار کرکٹ کے میدان میں اترنے والے عظیم ترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے چاہے اس کی وجہ جو بھی ہو لیکن انہوں نے خود کو اس افسانوی کردار میں تبدیل کیا جس نے اسی طرح افسانوی کردار کے حامل 'دیوار سے لگے شیروں' کے نام سے مشہور دھڑے کو یکجا کر کے آسٹریلیا میں 1992 کے ورلڈ کپ میں فتح سے ہمکنار کرایا۔
ملک بھر میں پھیلے عمران خان کے پرہجوم شائقین کی آنکھوں میں کرکٹ کی توہین کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے کوئی شخص اس بات کی نشاندہی کرنے کا خطرہ بھی مول لے سکتا ہے کہ یہ کھیل کا چھوٹا ورژن تھا اور یہ فتح اس کامیابی کے برابر تھی جو یونس خان اور ان کی ٹیم نے 2009 میں انگلینڈ میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا ایونٹ جیت کر حاصل کی تھی لیکن اس کیلئے 'چھوٹے خان' کا عظیم ترین کپتان میں شمار نہیں کیا جاتا۔
قومی کپتان کی حیثیت سے مصباح کا مرتبہ اور طویل العمری کے ساتھ انہوں نے جو سنگ میل عبور کیا ہے اس کی اہمیت کو ٹیسٹ کرکٹ کے تناظر میں ہی دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ دونوں فریقین کے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چلیں اعدادوشمار کی روشنی میں ان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہیں۔
انفرادی طور پر کامیابی کا جائزہ لینے سے قبل بہتر یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی سطح پر انجام دیئے جانے والے کارناموں پر پہلے بات کی جائے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ سیریز کے اختتام تک پاکستان 402 ٹیسٹ میچ کھیل چکا ہے، جس میں سے 130 جیتے اور 114 ہارے جبکہ 158 ڈرا یا بے نتیجہ رہے۔
اس لحاظ سے مجموعی طور پر کامیابی کی اوسط 32.33 فیصد رہی اور ہار و جیت کا تناسب 1.14 رہا۔ اگر یہی اعداد و شمار مصباح کے دیکھے جائیں تو 49 ٹیسٹ میں قیادت کرتے ہوئے 24 میں فتح، 14 میں شکست اور 11 میچز ڈرا ہوئے۔ فتوحات کی اوسط 48.97 اور ہار و جیت کا تناسب 1.71 رہا۔ عمران خان کی بات کی جائے تو انہوں نے 48 میچوں میں قیادت کرتے ہوئے 14 فتوحات سمیٹیں جن میں سے آٹھ میں شکست اور 26 میچ ڈرا پر منتج ہوئے۔ فتح کی اوسط 29.16 فیصد جبکہ ہار و جیت کا تناسب 1.75 رہا۔
یہ اعدادوشمار اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مصباح کی فتح کی اوسط قومی اوسط سے 16.64 فیصد زیادہ ہے اور عمران خان کی مذکورہ اوسط قومی اوسط سے بھی 3.17 فیصد کم ہے تو اس لحاظ سے مجموعی طور پر دو عظیم کھلاڑیوں میں 19.81 پوائنٹس کا واضح فرق ہے۔ دونوں کھلاڑیوں کے موازنے اور عمران خان کے حق میں فیصلے کے مقبول رجحان کے برعکس اعدادوشمار کے مطابق دونوں میں شاید ہی کسی چیز کا موازنہ کیا جا سکے۔ مصباح نے باآسانی اسے جیت لیا۔ یقیناً وہ ویسے کرشماتی، خوبرو یا دلکش یا صاف گو نہیں جیسے عمران تھے ۔۔۔۔ کچھ لوگوں کیلئے تو ابھی بھی ہیں لہٰذا مصباح کو دریا دلی دکھاتے ہوئے ہمیشہ دوسرا منصب دیا جاتا ہے۔ دونوں کھلاڑیوں کا ایک ساتھ نام لیا جانا چند لوگوں کی نظر میں مصباح جیسے کھلاڑی کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ تاہم اعدادوشمار اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اور یہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ معاملہ اس سے بالکل الٹ ہونا چاہیے۔
ان اعدادومشار کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔ پھر چاہے بات ناخشگوار ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ محض درست بات کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ عمران کے حق میں اور کن دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ عمران انتہائی دلیر اور جارحانہ کپتان تصور کیے جاتے تھے جو ہار سے نہیں ڈرتے تھے اور میچ کے نتیجے کیلئے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ 402 ٹیسٹ میچوں میں ڈرا کرنے کی اوسط 39.30 فیصد تھی۔ عمران کی قیادت میں ڈرا کی اوسط 54.16 فیصد رہی جبکہ مصباح کے دور میں یہ اوسط 22.14 فیصد رہی جہاں عمران کی اوسط قومی اوسط کے مقابلے میں 14.86 فیصد زیادہ ہے جبکہ مصباح اس پیمانے سے 17.16 فیصد کم ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر فرق 32.02 اوسط کا ہے۔ دونوں کے درمیان موازنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ عوام کے ذہن میں قائم غیر موثر سوچ ہے جس میں جھوٹے دعوے بغیر کسی کوشش کے حقائق کو آسانی سے ہرا دیتے ہیں۔
اعدادوشمار سے قطع نظر، دونوں کھلاڑیوں نے اپنے اپنے ادوار کا آغاز کیا اور اسے برقرار رکھا، اس پر مزید بحث کی جا سکتی ہے۔ 2010 کے دورہ انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد قیادت کا بوجھ مصباح کے مضبوط کاندھوں پر ڈالا گیا۔ عمران خان کو قیادت کا امیدوار بنانا ایک سمجھوتا تھا جس کی وجہ جاوید میانداد کی زیر قیادت کھیلنے والے کھلاڑیوں کی بغاوت تھی جو عظیم بلےک باز کی زیر قیادت کھیلنا اپنی عزت نفس پر کاری ضرب سمجھتے تھے۔
آگے بات کی جائے تو جب سے مصابح کو قیادت سونپی گئی، اس وقت سے اب تک وہ ایک سینئر کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور اس دوران صرف ایک ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا۔ عمران اکثر بیچ منجھدار میں ٹیم کو چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے تھے ۔ ان کی غیر موجودگی میں 29 مواقعوں پر میانداد اور ظہیر عباس میں قیادت کے فرائض انجام دیئے۔ وہ انجریز کا شکار بھی رہے لیکن ان کی اپنی ترجیحات بھی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہوتا تھا کہ اس وقت پاکستان کیلئے کھیلنا ان کی پہلی ترجیح نہیں تھی۔
مصباح نے سسٹم کا احترام کرتے ہوئے نپے تلے پیشہ ورانہ رویے کے ساتھ اس ٹیم کو پروان چڑھایا۔ عمران نے آہنی ہاتھوں کے ساتھ ایسا کیا اور سسٹم کے نام پر ہر چیز کی عوامی سطح پر تضحیک کرتے تھے۔ اور وہ ہمیشہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں بھی درست نہیں تھے۔ کھلاڑیوں کے انتخاب میں غلطی کرنے والے ایک سے زائد ہیں جن کا ذکر کرنا یہاں مقصود نہیں کیونکہ اس معاملے میں ہر کسی کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے دو نام قابل ذکر ہیں اور وہ رمیز راجہ اور منصور اختر کے ہیں کیونکہ اس معاملے کو حل کرنے کیلئے ان کا اپنا ریکارڈ ہی کافی ہے۔ اگر آپ ان کے ٹیسٹ ریکارڈ پر نظر دوڑائیں تو آپ اس معاملے میں مزید بحث نہیں کریں گے۔
اس مباحثے کا مقصد ہرگز کسی پر تنقید کرنا نہیں۔ عمران جو تھے، وہ تھے لیکن عمران خان سے موازنہ کرتے ہوئے مصباح کو اکثر کم تر سمجھے جانے والا رویہ بہت برہم کرتا ہے۔
اگر مصباح کا کسی سے موازنہ کرنا ہی ہے تو انہیں مشتاق محمد جیسے کھلاڑیوں کے مقام پر کھڑا کر کے ان سے موزانہ کیا جانا چاہیے جو عمران کے مقابلے میں زیادہ عظیم کھلاڑی تھے۔ آپ کو شک ہے، ہے ناں؟ ہم اس فلسفیانہ بحث کے اختتام کیلئے اگلی مرتبہ پھر حاضر ہوں گے۔ تب تک انتظار فرمائیں۔
ماخذ