الف نظامی
لائبریرین
"کپتان کا گیم پلان"
::::::::::::::::::::::
کپتان ٹیم لے کر گراؤنڈ میں داخل ہوا۔ اسے یقین تھا کہ جیت اسی کی ہوگی کیونکہ "سلیکٹر" نے ٹیم زبردست چن کر دی تھی۔ اس نے فیلڈ کھڑی کرتے ہوئے سارے ہی کھلاڑی فیلڈنگ پر لگا دئے تو ان میں سے سب سے ذہین وسیم اکرم ثانی نے پاس آکر پوچھا
"پہلا اوور میں نے کرانا ہے ؟"
کپتان نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"چپ کرکے تھرڈ مین باؤنڈری پر جا کر کھڑا ہوجا"
وسیم اکرم ثانی نے سوچا کہ کپتان شاید دوسرے اینڈ سے اسے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہوا تھرڈ مین باؤنڈری کی جانب چل دیا
"اچھا باؤلنگ آپ خود اوپن کریں گے"
کپتان کو یہ سن کر غصہ آگیا کہ ہے یہ وسیم اکرم ثانی اور گیم پلان کا اسے کچھ پتہ نہیں۔ اس نے وسیم اکرم ثانی کو واپس بلایا اور اس سے کہا
"فیلڈرز گن"
وسیم اکرم ثانی نے کپتان سمیت سارے فیلڈرز گنے تو اس کا منہ حیرت سے کھل گیا، اس نے کپتان سے کہا
"یہ تو دو کم ہیں۔ صرف 9 فیلڈرز ہیں میدان میں"
کپتان نے کہا
"میرا گیم پلان سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ ورلڈکپ تو دنیا میں دوسروں نے مجھ سے زیادہ جیت رکھے ہیں۔ وزیر اعظم صرف میں بنا ہوں کیونکہ میرا گیم پلان سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ باؤلر ابھی میدان میں نہیں اترے۔ وہ مخالف ٹیم کے لئے سرپرائز ہیں"
"کیسا سرپرائز کپتان ؟ وسیم اکرم ثانی آپ نے مجھے بنایا ہے اور باؤلنگ کوئی اور کرے گا ؟"
کپتان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے وسیم اکرم ثانی کو گیم پلان سے آگاہ کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں کہا
"باؤلنگ نیب اور ایف آئی اے کرے گی۔ مخالف ٹیم کے پاس لوٹ کے 30 ہزار ارب ڈالرز ہیں۔ ہر وکٹ گرنے کے ساتھ تین ہزار ارب وصول ہوں گے۔ لوٹ کی اس رقم سے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے بڑھ جائیں گے کہ پاکستان ساری دنیا کو قرضے دینے والا ملک بن جائے گا"
یہ سن کر وسیم اکرم ثانی کا چہرہ مسرت سے تمتما اٹھا۔ اس نے جذباتی لہجے میں پوچھا
"مجھے اپنے گاؤں والے گھر میں سولر لگوانا ہے، اس کے لئے بھی تین لاکھ کا قرضہ مل جائے گا ؟"
کپتان نے اس کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"وہ تو ابھی لگوا لے۔ جب ملک کا خزانہ 30 ہزار ارب سے بھر جائے گا تو تیرے 3 لاکھ کو کون پوچھے گا ؟"
"اس کا مطلب ہے کہ ہمیں کام شام کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ معیشت تو نیب اور ایف آئی اے کے وکٹیں لینے سے چلے گی۔ کتنا مزہ آئے گا ناں کپتان ! جب ہر وکٹ پر تین ہزار ارب وصول ہوں گے"
"کام شام کرنے کی ضرورت ہوتی تو تو وسیم اکرم اور میں عمران خان ہوتا ؟ موجیں کر موجیں ! تیرے کپتان کا گیم سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ ہمیں وزارتیں چلانے اور منصوبے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے وزارتوں سے معیشت نہیں چلانی۔ ہم وکٹیں گرا کر معیشت چلائیں گے"
"تو کپتان پھر اتنے سارے وزیر رکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟"
"یہ تو نیب اور ایف آئی اے کی باؤلنگ پر تین تین ہزار ارب کے کیچ پکڑنے کے لئے ہیں"
"اور وہ جو مشیر اور ترجمان ہیں ؟"
"وہ مخالف ٹیم کو گالیاں دینے کے لئے ہیں"
"کپتان ! میری ایک حسرت ہے۔ وہ اگر آپ پہلی وکٹ گرنے کے ساتھ ملنے والے تین ہزار ارب میں سے پوری کردیں تو مزہ آجائے"
"ہاں ہاں کیوں نہیں، بول کیا حسرت ہے ؟"
"میرا بڑا ارمان ہے کہ اپنے گاؤں میں میٹرو پروجیکٹ بناؤں"
"یہ بھی کوئی ارمان ہے ؟ پرویز خٹک سے بلیو پرنٹ لے اور شروع ہوجا"
"نہیں کپتان، وہ کہتا ہے بی آر ٹی پشاور کی جو تین بسیں جل گئی ہیں ان میں سے دو تیرے گاؤں کے لئے کافی ہیں"
خواتین و حضرات ! تیسرے دن (سال) کا کھیل جاری ہے۔ وکٹ ابھی کوئی نہیں گری۔ سو خزانے میں ابھی دھول کے سوا کچھ نہیں آیا۔ تماشائی بھوک اور افلاس سے بلبلا رہے ہیں۔ مگر ٹینشن والی کوئی بات نہیں۔ بس پہلی وکٹ گرنے کی دیر ہے، تین ہزار ارب خزانے میں ہوں گے پھر ہر طرف موجاں ای موجاں۔ مگر پتہ نہیں کیوں سارے سلیکٹرز سر جوڑ کر کچھ کھسر پھسر کرنے لگے ہیں۔ لگتا ہے انہیں بھی یقین ہوچلا ہے کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی وڑ گئی ہے !
::::::::::::::::::::::
کپتان ٹیم لے کر گراؤنڈ میں داخل ہوا۔ اسے یقین تھا کہ جیت اسی کی ہوگی کیونکہ "سلیکٹر" نے ٹیم زبردست چن کر دی تھی۔ اس نے فیلڈ کھڑی کرتے ہوئے سارے ہی کھلاڑی فیلڈنگ پر لگا دئے تو ان میں سے سب سے ذہین وسیم اکرم ثانی نے پاس آکر پوچھا
"پہلا اوور میں نے کرانا ہے ؟"
کپتان نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"چپ کرکے تھرڈ مین باؤنڈری پر جا کر کھڑا ہوجا"
وسیم اکرم ثانی نے سوچا کہ کپتان شاید دوسرے اینڈ سے اسے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہوا تھرڈ مین باؤنڈری کی جانب چل دیا
"اچھا باؤلنگ آپ خود اوپن کریں گے"
کپتان کو یہ سن کر غصہ آگیا کہ ہے یہ وسیم اکرم ثانی اور گیم پلان کا اسے کچھ پتہ نہیں۔ اس نے وسیم اکرم ثانی کو واپس بلایا اور اس سے کہا
"فیلڈرز گن"
وسیم اکرم ثانی نے کپتان سمیت سارے فیلڈرز گنے تو اس کا منہ حیرت سے کھل گیا، اس نے کپتان سے کہا
"یہ تو دو کم ہیں۔ صرف 9 فیلڈرز ہیں میدان میں"
کپتان نے کہا
"میرا گیم پلان سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ ورلڈکپ تو دنیا میں دوسروں نے مجھ سے زیادہ جیت رکھے ہیں۔ وزیر اعظم صرف میں بنا ہوں کیونکہ میرا گیم پلان سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ باؤلر ابھی میدان میں نہیں اترے۔ وہ مخالف ٹیم کے لئے سرپرائز ہیں"
"کیسا سرپرائز کپتان ؟ وسیم اکرم ثانی آپ نے مجھے بنایا ہے اور باؤلنگ کوئی اور کرے گا ؟"
کپتان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے وسیم اکرم ثانی کو گیم پلان سے آگاہ کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں کہا
"باؤلنگ نیب اور ایف آئی اے کرے گی۔ مخالف ٹیم کے پاس لوٹ کے 30 ہزار ارب ڈالرز ہیں۔ ہر وکٹ گرنے کے ساتھ تین ہزار ارب وصول ہوں گے۔ لوٹ کی اس رقم سے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے بڑھ جائیں گے کہ پاکستان ساری دنیا کو قرضے دینے والا ملک بن جائے گا"
یہ سن کر وسیم اکرم ثانی کا چہرہ مسرت سے تمتما اٹھا۔ اس نے جذباتی لہجے میں پوچھا
"مجھے اپنے گاؤں والے گھر میں سولر لگوانا ہے، اس کے لئے بھی تین لاکھ کا قرضہ مل جائے گا ؟"
کپتان نے اس کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"وہ تو ابھی لگوا لے۔ جب ملک کا خزانہ 30 ہزار ارب سے بھر جائے گا تو تیرے 3 لاکھ کو کون پوچھے گا ؟"
"اس کا مطلب ہے کہ ہمیں کام شام کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ معیشت تو نیب اور ایف آئی اے کے وکٹیں لینے سے چلے گی۔ کتنا مزہ آئے گا ناں کپتان ! جب ہر وکٹ پر تین ہزار ارب وصول ہوں گے"
"کام شام کرنے کی ضرورت ہوتی تو تو وسیم اکرم اور میں عمران خان ہوتا ؟ موجیں کر موجیں ! تیرے کپتان کا گیم سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ ہمیں وزارتیں چلانے اور منصوبے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے وزارتوں سے معیشت نہیں چلانی۔ ہم وکٹیں گرا کر معیشت چلائیں گے"
"تو کپتان پھر اتنے سارے وزیر رکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟"
"یہ تو نیب اور ایف آئی اے کی باؤلنگ پر تین تین ہزار ارب کے کیچ پکڑنے کے لئے ہیں"
"اور وہ جو مشیر اور ترجمان ہیں ؟"
"وہ مخالف ٹیم کو گالیاں دینے کے لئے ہیں"
"کپتان ! میری ایک حسرت ہے۔ وہ اگر آپ پہلی وکٹ گرنے کے ساتھ ملنے والے تین ہزار ارب میں سے پوری کردیں تو مزہ آجائے"
"ہاں ہاں کیوں نہیں، بول کیا حسرت ہے ؟"
"میرا بڑا ارمان ہے کہ اپنے گاؤں میں میٹرو پروجیکٹ بناؤں"
"یہ بھی کوئی ارمان ہے ؟ پرویز خٹک سے بلیو پرنٹ لے اور شروع ہوجا"
"نہیں کپتان، وہ کہتا ہے بی آر ٹی پشاور کی جو تین بسیں جل گئی ہیں ان میں سے دو تیرے گاؤں کے لئے کافی ہیں"
خواتین و حضرات ! تیسرے دن (سال) کا کھیل جاری ہے۔ وکٹ ابھی کوئی نہیں گری۔ سو خزانے میں ابھی دھول کے سوا کچھ نہیں آیا۔ تماشائی بھوک اور افلاس سے بلبلا رہے ہیں۔ مگر ٹینشن والی کوئی بات نہیں۔ بس پہلی وکٹ گرنے کی دیر ہے، تین ہزار ارب خزانے میں ہوں گے پھر ہر طرف موجاں ای موجاں۔ مگر پتہ نہیں کیوں سارے سلیکٹرز سر جوڑ کر کچھ کھسر پھسر کرنے لگے ہیں۔ لگتا ہے انہیں بھی یقین ہوچلا ہے کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی وڑ گئی ہے !