محمداحمد
لائبریرین
کچھوے اور خرگوش کے مقابلے والی کہانی سے تو ہم سبھی واقف ہیں۔ وہی کہ جس میں خرگوش یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے تیز رفتار کے سامنے کچھوے جیسے آہستہ رو کی کیا مجال کہ وہ دوڑ میں آگے نکل جائے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ خرگوش اپنی حد سے بڑھی خود اعتمادی کے باعث وقت ضائع کرتا رہتا ہے اور کچھوا بغیر رکےمسلسل چلتے چلتے ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ کہانی تو ہمیں بچپن ہی سے یاد ہے لیکن کہانی کا سبق ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ بچوں کو ایسی کہانیاں اسی لئے سنائی جاتی ہیں کہ وہ ان سے سبق حاصل کریں۔ ان اسباق کو سمجھیں ، اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ آئندہ زندگی میں اُن کے کام آنے والے ہیں۔
کچھوے اور خرگوش کی کہانی کا عمومی سبق تو یہی ہے کہ کسی کو خود سے کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔ خود اعتمادی اور بے جا خود اعتمادی میں فرق رکھنا بھی ضروری ہے۔ تاہم اس کہانی کا اطلاق ہماری زندگی کے ایک اور معاملے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہماری زندگی ایک دن ختم ہونی ہے اور ہمیں اللہ رب العزّت کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ لیکن افسوس ہم میں سے بیشتر لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہمیں مرنا بھی ہے۔ ہم روزِ حساب کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ابھی کیا جلدی ہے۔ ابھی تو بہت زندگی پڑی ہے، نیک عمل بھی کر لیں گے اور بُرے کاموں سے توبہ بھی کر لیں گے۔ یعنی ہم خرگوش کی طرح ادھر اُدھر وقت ضائع کرتے رہتے ہیں کہ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔بس اِسی قسم کی سوچوں کے باعث ہمارے اچھے اعمال میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو پاتی۔
دوسری طرف وقت ہے کہ مسلسل گزرتا ہی جاتا ہے یہاں تک کہ زندگی کے نام پر ملی مُہلت ختم ہو جاتی ہے ۔ موت اگرچہ کچھوے کی سی چال چلتی ہے لیکن بالآخر ہمارے سر پر پہنچ ہی جاتی ہے۔ پھر ہم کفِ افسوس ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ جانے ہمارا وقت کس خوابِ غفلت میں کٹ گیا۔ کاش ہمیں تھوڑی مہلت اور مل جائے تو ہم آخرت کی تیاری کر لیں۔ لیکن پھر مہلت نہیں ملتی۔
اگر آپ اس بات کے قائل ہیں کہ بالآخر ہمیں مرنا ہے اور اللہ کے حضور پیش ہونا ہے ، اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو پھر یہ بھی سمجھ لیجے کہ آج کا دن ہی یومِ عمل ہے۔ کل کا دن یومِ حساب ثابت ہو سکتا ہے۔ زندگی کی اس دوڑ میں جو بھی عملِ صالح آپ کرنا چاہتے ہیں آج ہی کر لیجے یا آج ہی سے آغاز کر دیجیے۔ سُستی اور ٹال مٹول کو ترک کر دیجیے۔
گھڑی کی سوئیاں مسلسل حرکت میں ہیں ، وقت بے آواز گزرتا جا رہا ہے۔ اس تحریر کو ایک دوست کی یاد دہانی سمجھیے۔
یہ کہانی تو ہمیں بچپن ہی سے یاد ہے لیکن کہانی کا سبق ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ بچوں کو ایسی کہانیاں اسی لئے سنائی جاتی ہیں کہ وہ ان سے سبق حاصل کریں۔ ان اسباق کو سمجھیں ، اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ آئندہ زندگی میں اُن کے کام آنے والے ہیں۔
ہماری زندگی ایک دن ختم ہونی ہے اور ہمیں اللہ رب العزّت کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ لیکن افسوس ہم میں سے بیشتر لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہمیں مرنا بھی ہے۔ ہم روزِ حساب کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ابھی کیا جلدی ہے۔ ابھی تو بہت زندگی پڑی ہے، نیک عمل بھی کر لیں گے اور بُرے کاموں سے توبہ بھی کر لیں گے۔ یعنی ہم خرگوش کی طرح ادھر اُدھر وقت ضائع کرتے رہتے ہیں کہ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔بس اِسی قسم کی سوچوں کے باعث ہمارے اچھے اعمال میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو پاتی۔
دوسری طرف وقت ہے کہ مسلسل گزرتا ہی جاتا ہے یہاں تک کہ زندگی کے نام پر ملی مُہلت ختم ہو جاتی ہے ۔ موت اگرچہ کچھوے کی سی چال چلتی ہے لیکن بالآخر ہمارے سر پر پہنچ ہی جاتی ہے۔ پھر ہم کفِ افسوس ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ جانے ہمارا وقت کس خوابِ غفلت میں کٹ گیا۔ کاش ہمیں تھوڑی مہلت اور مل جائے تو ہم آخرت کی تیاری کر لیں۔ لیکن پھر مہلت نہیں ملتی۔
اگر آپ اس بات کے قائل ہیں کہ بالآخر ہمیں مرنا ہے اور اللہ کے حضور پیش ہونا ہے ، اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو پھر یہ بھی سمجھ لیجے کہ آج کا دن ہی یومِ عمل ہے۔ کل کا دن یومِ حساب ثابت ہو سکتا ہے۔ زندگی کی اس دوڑ میں جو بھی عملِ صالح آپ کرنا چاہتے ہیں آج ہی کر لیجے یا آج ہی سے آغاز کر دیجیے۔ سُستی اور ٹال مٹول کو ترک کر دیجیے۔
گھڑی کی سوئیاں مسلسل حرکت میں ہیں ، وقت بے آواز گزرتا جا رہا ہے۔ اس تحریر کو ایک دوست کی یاد دہانی سمجھیے۔