محسن وقار علی
محفلین
کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہے آج بھی
رسی تو جل گئی ہے مگر بل ہے آج بھی
انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہے آج بھی
اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ کہ ذہن مقفل ہے آج بھی
باتیں تمہاری شیخ و برہمن! خطا معاف!
پہلے کی طرح گیر مدلل ہے آج بھی
راہی! ہر ایک سمت فساد و عناد کے
چھائے ہوئے فضاؤں میں بادل ہے آج بھی
رسی تو جل گئی ہے مگر بل ہے آج بھی
انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہے آج بھی
اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ کہ ذہن مقفل ہے آج بھی
باتیں تمہاری شیخ و برہمن! خطا معاف!
پہلے کی طرح گیر مدلل ہے آج بھی
راہی! ہر ایک سمت فساد و عناد کے
چھائے ہوئے فضاؤں میں بادل ہے آج بھی