کچھ اس کی زلف کھلی ' کچھ میرے ارمان کھلے
جو اس کی آنکھ اٹھی ' مستی کے سامان کھلے
ابھی کمسن ہے ' واقف آدابِ عشق نہیں
سب کے سامنے مجھ سے وہ نادان کھلے
کوئ مکیں آے کہ مسافر ' پل دو پل ٹھہرے
کوئ تو ہنگامہ دل ہو کہ بند مکان کھلے
کبھی جگر تھا جہاں ' اک نشانِ ہجر ہے وہاں
یہی ہے جستجو کہ اس پر یہ نشان کھلے
آ تو پنہچا ہے بیٹھا ہے پاینتی میرے
کوئ گر ایسا بھی بتاؤ کہ یہ مہمان کھلے
جو اس کی آنکھ اٹھی ' مستی کے سامان کھلے
ابھی کمسن ہے ' واقف آدابِ عشق نہیں
سب کے سامنے مجھ سے وہ نادان کھلے
کوئ مکیں آے کہ مسافر ' پل دو پل ٹھہرے
کوئ تو ہنگامہ دل ہو کہ بند مکان کھلے
کبھی جگر تھا جہاں ' اک نشانِ ہجر ہے وہاں
یہی ہے جستجو کہ اس پر یہ نشان کھلے
آ تو پنہچا ہے بیٹھا ہے پاینتی میرے
کوئ گر ایسا بھی بتاؤ کہ یہ مہمان کھلے