طارق شاہ
محفلین
فراق گورکھپوری
غزل
کُچھ اِشارے تھے جنھیں دُنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اُس نِگاہِ آشنا کو ، کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے
واہ ری غفلت تُجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ہوش کی توفِیق بھی ، کب اہلِ دل کو ہوسکی
عِشق میں ، اپنے کو دِیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
پردۂ آزردگی میں تھی وہ جانِ اِلتفات !
جس ادا کو رنجشِ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بے نیازی کو تِری پایا سراسر سوز و درد
تُجھ کو اِک دُنیا سے بَیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
باتوں باتوں میں پیامِ مرگ بھی ، آ ہی گیا
اُن نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ عِشق ، مانوسِ جہاں ہوتا چلا !
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
حُسن کو اِک حُسن ہی سمجھے نہیں اور،اے فراق
مہرباں ، نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
فراق گورکھپوری