کچھ اشعار برائے اصلاح

توقیر عالم

محفلین
پھر ہے مرے جذبات میں ہلچل برپا
پھر سے ترے دیدار کے ارماں جاگے
پھر شور ہے دریا میں تری یادوں کے
پھر سے کئی سوئے ہوئے طوفاں جاگے

نجانے کب تلک سہتا رہوں گا
پرانے غم بُھلا ہی کب سکوں گا
بہاروں کی طلب مجھ کو نہیں اب
خزاں کے موسموں میں ہی رہوں گا

دامنِ زندگی اب چھوٹنے کو ہے
سلسلہ دھڑکنوں کا ٹوٹنے کو ہے
موت کب سے ہماری منتظر ہو گی
اور اب زندگی بھی روٹھنے کو ہے

حد سے اپنی نکل گیا ہوں میں
روپ میں تیرے ڈھل گیا ہوں میں

بوجھ کو جیسے اتارا جا رہا ہے
زندگی کو یوں گزارا جا رہا ہے
 
Top