فرخ منظور
لائبریرین
کچھ اور گمرہیِ دل کا راز کیا ہو گا
اِک اجنبی تھا کہیں رہ میں کھو گیا ہو گا
وہ جن کی رات تمھارے ہی دم سے روشن تھی
جو تم وہاں سے گئے ہو گے کیا ہوا ہو گا
اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی
کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہو گا
تمھارے دل میں کہاں میری یاد کا پرتو
وہ ایک ہلکا سا بادل تھا چھٹ گیا ہو گا
وفا نہ کی نہ سہی، یہ بھی یاد ہے تجھ کو
کوئی جفا کو بھی تیرے ترس رہا ہو گا
غمِ جدائی میں ایسی کہاں تھی لذّتِ درد
انھیں بھی مجھ سے بچھڑنے کا دکھ ہوا ہوگا
(صوفی تبسمؔ)
یہی غزل فریدہ خانم کی آواز میں سنیے۔
اِک اجنبی تھا کہیں رہ میں کھو گیا ہو گا
وہ جن کی رات تمھارے ہی دم سے روشن تھی
جو تم وہاں سے گئے ہو گے کیا ہوا ہو گا
اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی
کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہو گا
تمھارے دل میں کہاں میری یاد کا پرتو
وہ ایک ہلکا سا بادل تھا چھٹ گیا ہو گا
وفا نہ کی نہ سہی، یہ بھی یاد ہے تجھ کو
کوئی جفا کو بھی تیرے ترس رہا ہو گا
غمِ جدائی میں ایسی کہاں تھی لذّتِ درد
انھیں بھی مجھ سے بچھڑنے کا دکھ ہوا ہوگا
(صوفی تبسمؔ)
یہی غزل فریدہ خانم کی آواز میں سنیے۔