کچھ ایسی رہ اختیار کرنا

محترم سر الف عین
عظیم
محمد ریحان قریشی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


لہو سے میں نے جو باب لکھے۔
بنامِ عہدِ بہار کرنا

ملے جو ان کی گلی سے مجھکو
نہ غم وہ سارے شمار کرنا

میں خواہشوں کے بھنور سے نکلوں
کچھ ایسی رہ اختیار کرنا

مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ
لحد پہ کچھ انتظار کرنا

تری تھی خواہش سو مر گیا ہوں
کفن نہ اب تار تار کرنا
 

الف عین

لائبریرین
لہو سے میں نے جو باب لکھے۔
بنامِ عہدِ بہار کرنا
. کہیں" تم" ضمیر لانے کی ضرورت ہے ورنہ پھر فاعل "میں" کے ساتھ سمجھ میں نہیں آتا

مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ
لحد پہ کچھ انتظار کرنا
... محبوب کس کی لحد پر موجود ہے؟ اس کا کچھ ذکر؟

تری تھی خواہش سو مر گیا ہوں
کفن نہ اب تار تار کرنا
... 'میرا کفن'؟ کوئی مجھ جیسا یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ محبوب بھی کفن پہنے ہے، شاید کبھی اس کا بھی فیشن چل جائے
 
لہو سے میں نے جو باب لکھے۔
بنامِ عہدِ بہار کرنا
. کہیں" تم" ضمیر لانے کی ضرورت ہے ورنہ پھر فاعل "میں" کے ساتھ سمجھ میں نہیں آتا

مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ
لحد پہ کچھ انتظار کرنا
... محبوب کس کی لحد پر موجود ہے؟ اس کا کچھ ذکر؟

تری تھی خواہش سو مر گیا ہوں
کفن نہ اب تار تار کرنا
... 'میرا کفن'؟ کوئی مجھ جیسا یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ محبوب بھی کفن پہنے ہے، شاید کبھی اس کا بھی فیشن چل جائے
سر کوشش کرتا ہوں بہتر کرنے کی
 
لہو سے میں نے جو باب لکھے۔
بنامِ عہدِ بہار کرنا
. کہیں" تم" ضمیر لانے کی ضرورت ہے ورنہ پھر فاعل "میں" کے ساتھ سمجھ میں نہیں آتا

مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ
لحد پہ کچھ انتظار کرنا
... محبوب کس کی لحد پر موجود ہے؟ اس کا کچھ ذکر؟

تری تھی خواہش سو مر گیا ہوں
کفن نہ اب تار تار کرنا
... 'میرا کفن'؟ کوئی مجھ جیسا یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ محبوب بھی کفن پہنے ہے، شاید کبھی اس کا بھی فیشن چل جائے


لہو سے تم پرجو باب لکھے۔
بنامِ عہدِ بہار کرنا

ملے جو ان کی گلی سے مجھکو
نہ غم وہ سارے شمار کرنا

میں خواہشوں کے بھنور سے نکلوں
کچھ ایسی رہ اختیار کرنا

مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ
مری لحد انتظار کرنا

تری تھی خواہش سو مر گیا ہوں
مجھےنہ اب داغدار کرنا

سر نظر ثانی کی استدعا ہے
 

الف عین

لائبریرین
کرنا ردیف امر ہے، یعنی کرو/کیجیے۔ یا بطور فعل؟ یہ واضح نہیں ہوتا شعروں سے
لہو سے باب تم پر یا میں نے لکھے کی ضمیر کی بات نہیں کی تھی میں نے بلکہ اگر یہ امر ہے تو یوں کہا جائے
تم ان کو نذرِ بہار کرنا
پہلا مصرع تو پچھلا ہی بہتر تھا!
آخری دونوں اشعار درست ہیں کہ صاف ہو گیا ہے کہ امر ہے، ایسا کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔ لیکن شمار اور اختیار والے اشعار میں اب بھی واضح نہیں
 
کرنا ردیف امر ہے، یعنی کرو/کیجیے۔ یا بطور فعل؟ یہ واضح نہیں ہوتا شعروں سے
لہو سے باب تم پر یا میں نے لکھے کی ضمیر کی بات نہیں کی تھی میں نے بلکہ اگر یہ امر ہے تو یوں کہا جائے
تم ان کو نذرِ بہار کرنا
پہلا مصرع تو پچھلا ہی بہتر تھا!
آخری دونوں اشعار درست ہیں کہ صاف ہو گیا ہے کہ امر ہے، ایسا کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔ لیکن شمار اور اختیار والے اشعار میں اب بھی واضح نہیں
سر کوشش کرتا ہوں
 
کرنا ردیف امر ہے، یعنی کرو/کیجیے۔ یا بطور فعل؟ یہ واضح نہیں ہوتا شعروں سے
لہو سے باب تم پر یا میں نے لکھے کی ضمیر کی بات نہیں کی تھی میں نے بلکہ اگر یہ امر ہے تو یوں کہا جائے
تم ان کو نذرِ بہار کرنا
پہلا مصرع تو پچھلا ہی بہتر تھا!
آخری دونوں اشعار درست ہیں کہ صاف ہو گیا ہے کہ امر ہے، ایسا کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔ لیکن شمار اور اختیار والے اشعار میں اب بھی واضح نہیں


لہو سے میں نے جو باب لکھے۔
تم ان کو نذرِ بہار کرنا

ملے جو ان کی گلی سے مجھکو
نہ تم وہ غم سب شمار کرنا

میں خواہشوں کے بھنور سے نکلوں
تم ایسی رہ اختیار کرنا

مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ
مری لحد انتظار کرنا

تمھاری خواہش تھی مر گیا ہوں
مجھےنہ اب داغدار کرنا

سر نظر ثانی کی استدعا ہے
 

عظیم

محفلین
نہ تم وہ غم سب شمار کرنا
میں 'سب' کا معلوم نہیں پڑتا کہ تم سب لوگ یا سب غم کہا جا رہا ہے۔ ہلکی سی کنفیوژن ہے۔ اس مصرع کی پہلی صورت
نہ غم وہ سارے شمار کرنا
میرے خیال میں بہتر ہے
 
Top