محمد وارث

لائبریرین
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے!

یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دُور کچھ اہلِ سفر گئے

ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ، خدا کو خبر ہے، کدھر گئے

رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قَدَر
میں ہوں زمیں، پہ داغ مرے تا قمر گئے

رخسار پر ہے رنگِ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا، وہ نکھر گئے

دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے

جانے لگا ہے دل کی طَرَف ان کا ہاتھ اب
نالے شبِ فراق کے کچھ کام کر گئے

حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ، کہ شب آئے سحر گئے

بس ایک ذات حضرتِ شیدا کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہلِ ہنر گئے

(مسیح الملک حکیم اجمل خاں شیدا)

ماخذ: نقوش غزل نمبر، لاہور، 1985ء
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے واہ واہ سبحان اللہ سبحان اللہ ،
کیا ہی عمدہ غزل ہے اور غزل بھی عین غزل ہی ہے۔
بہت خوب، وارث صاحب بہت شکریہ،
اس قدر خوبصورت کلام پیش کرنے کے لیے۔
سلامت و آباد رہیں۔والسلام
 
Top