سلمان حمید
محفلین
کہنے کو تو ہم پچھلے مہینے (مارچ) میں پاکستان تشریف لے گئے تھے اور اپنی ایک مہینے کی چھٹیاں ایسے گزاریں جیسے ان چار ہفتوں سے زیادہ مصروف ترین دن پورے سال میں نہ تھے لیکن وہ سارا وقت یوں گزرا کہ آج دفتر میں پہلا دن چھٹیوں پہ جانے سے پہلے کے آخری دن سے ایسے جڑ گیا ہے جیسے درمیان میں ایک ویک اینڈ آیا ہواور بس۔
پہنچتے ہی اپنی اکلوتی سالی صاحبہ کی شادی میں شرکت کی، پھر جو رشتے داروں سے ملنے ملانے کا سلسلہ اور ننکانہ صاحب (آبائی شہر) سے دوسرے شہروں کی جانب بھاگ دوڑ شروع ہوئی تو چھوٹے بھائی کی شادی ہی واپس ننکانہ کھینچ کر لائی۔ شادی کے دنوں میں بیمار پڑنا اور بہت سارے شغل میلے سے محروم رہ جانا، ولیمے کے اگلے دن ہی واپس جرمنی کے لیے پر تول لینا (یہاں جہاز کے پر بھی تولے جا سکتے ہیں) اور پھر آتے ہی ڈاکٹر سے رابطہ کر کے ایک ہفتے کی مزید چھٹی لے کر گھر لمبی تان کر سوئے رہنا، بھی اسی دورانیے کا حصہ ہیں جس کو میں اپنے پچھلے سال کے بہترین دن گردانتا ہوں۔
لیکن یہ کیا۔۔۔! واپس آتے ہی جب سکائیپ (skype) پر گھر والوں کو دیکھا تو یہ روز مرہ کا ایک کام لگا جو ہر شام کرنا ضروری ہوتا ہے، بیٹا صاحب بھی آتے ہی گھر میں ایسے بھاگنا دوڑنا اور کھیلنا شروع ہو گئےجیسے جناب، پاکستان میں اپنی عمر سے چھوٹے و بڑے بچوں کے ساتھ صبح شام کھیلنے کے ساتھ ساتھ مختلف (اور تقریباً سبھی) اقسام کے رشتے داروں سے کبھی ملے تک نہ تھے۔ بیگم نے کچھ دن آہ و زاری کی اور پھر کچن میں برتنوں کی کھٹ پٹ کے شور میں یہ آوازبھی دب گئی۔
آج دفتر پہنچا تو سبھی نے روز کی طرح با آواز بلند استقبال کیا لیکن آج گڈ مارننگ کے نعرے میں جوش زیادہ تھا۔ ڈینیل نے روز کی طرح حال پوچھا اور میں نے اس کی کرسی کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے کندھے پر روز کی ہی طرح ہاتھ مارا اور وہ مسکرا دیا۔ فالکو نے آج بھی لیب سے اندر جھانکتے ہوئے گڈ مارننگ کی آواز لگائی تو میں نے اس سے ہمیشہ کی طرح "کافی تیار ہے؟" والا سوال کیا جس کا جواب ہمیشہ کی طرح اثبات میں ہلتا ہو سر تھا، میرے کھانسنے پر کرسٹوس نے ہیڈ فون اتار کر اپنے میز سے "ڈونٹ ڈائی" کی مانوس سی آواز لگائی اور ایلیکس بھی ہنستے ہوئے پکارا کہ "پاکستانی فلو مجھے مت دے دینا"۔ اسی دوران فرانک کو چھینکیں آنا شروع ہوئیں تو رکنے کا نام نہ لیں تو سبھی نے معنی خیز نظروں سے مجھے گھورا تو میں نے کندھے اچکا کر "اٹس ناٹ بے کاز آف می" کا نعرہ لگا دیا اور فرانک نے چھینکیں رکتے ہی میری طرف "تھینکس سلمان" کا فقرہ اچھال دیا اور میں کھسیانا ہو کر ہنس دیا۔
کچھ بھی تو نہیں بدلا یہاں اور شاید وہاں بھی۔ کاروبارِ زندگی وہاں بھی چلتا چھوڑ کے آیا ہوں اور یہاں بھی چل رہا ہے۔ دوپہر کو کھانے کی بریک میں بیگم کو میسیج کر کے بیٹے کا پوچھا تو وہ اسے سلانے کے لیے لیٹ چکی تھی جس کا مطلب ہر جانب سب ویسا ہی چل رہا ہے جیسا آج سے ایک مہینہ پہلے تھا۔ میرا یہاں ہونا، یا وہاں رہنا ایک سا ہی ہے لیکن شاید بہت اندر کہیں کچھ تبدیلیاں آئی ہوں یا کچھ یادیں دل و دماغ کی دیواروں میں کھرچی گئی ہوں لیکن ان کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے اپنے آپ سے ملنے کا وقت چاہئیے جو اب پتہ نہیں کب ملے۔
لیکن ایک مہینے کی چھٹی کے بعد میں آپ سب کو پھر سے السلامُ علیکم کہتا ہوں
پہنچتے ہی اپنی اکلوتی سالی صاحبہ کی شادی میں شرکت کی، پھر جو رشتے داروں سے ملنے ملانے کا سلسلہ اور ننکانہ صاحب (آبائی شہر) سے دوسرے شہروں کی جانب بھاگ دوڑ شروع ہوئی تو چھوٹے بھائی کی شادی ہی واپس ننکانہ کھینچ کر لائی۔ شادی کے دنوں میں بیمار پڑنا اور بہت سارے شغل میلے سے محروم رہ جانا، ولیمے کے اگلے دن ہی واپس جرمنی کے لیے پر تول لینا (یہاں جہاز کے پر بھی تولے جا سکتے ہیں) اور پھر آتے ہی ڈاکٹر سے رابطہ کر کے ایک ہفتے کی مزید چھٹی لے کر گھر لمبی تان کر سوئے رہنا، بھی اسی دورانیے کا حصہ ہیں جس کو میں اپنے پچھلے سال کے بہترین دن گردانتا ہوں۔
لیکن یہ کیا۔۔۔! واپس آتے ہی جب سکائیپ (skype) پر گھر والوں کو دیکھا تو یہ روز مرہ کا ایک کام لگا جو ہر شام کرنا ضروری ہوتا ہے، بیٹا صاحب بھی آتے ہی گھر میں ایسے بھاگنا دوڑنا اور کھیلنا شروع ہو گئےجیسے جناب، پاکستان میں اپنی عمر سے چھوٹے و بڑے بچوں کے ساتھ صبح شام کھیلنے کے ساتھ ساتھ مختلف (اور تقریباً سبھی) اقسام کے رشتے داروں سے کبھی ملے تک نہ تھے۔ بیگم نے کچھ دن آہ و زاری کی اور پھر کچن میں برتنوں کی کھٹ پٹ کے شور میں یہ آوازبھی دب گئی۔
آج دفتر پہنچا تو سبھی نے روز کی طرح با آواز بلند استقبال کیا لیکن آج گڈ مارننگ کے نعرے میں جوش زیادہ تھا۔ ڈینیل نے روز کی طرح حال پوچھا اور میں نے اس کی کرسی کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے کندھے پر روز کی ہی طرح ہاتھ مارا اور وہ مسکرا دیا۔ فالکو نے آج بھی لیب سے اندر جھانکتے ہوئے گڈ مارننگ کی آواز لگائی تو میں نے اس سے ہمیشہ کی طرح "کافی تیار ہے؟" والا سوال کیا جس کا جواب ہمیشہ کی طرح اثبات میں ہلتا ہو سر تھا، میرے کھانسنے پر کرسٹوس نے ہیڈ فون اتار کر اپنے میز سے "ڈونٹ ڈائی" کی مانوس سی آواز لگائی اور ایلیکس بھی ہنستے ہوئے پکارا کہ "پاکستانی فلو مجھے مت دے دینا"۔ اسی دوران فرانک کو چھینکیں آنا شروع ہوئیں تو رکنے کا نام نہ لیں تو سبھی نے معنی خیز نظروں سے مجھے گھورا تو میں نے کندھے اچکا کر "اٹس ناٹ بے کاز آف می" کا نعرہ لگا دیا اور فرانک نے چھینکیں رکتے ہی میری طرف "تھینکس سلمان" کا فقرہ اچھال دیا اور میں کھسیانا ہو کر ہنس دیا۔
کچھ بھی تو نہیں بدلا یہاں اور شاید وہاں بھی۔ کاروبارِ زندگی وہاں بھی چلتا چھوڑ کے آیا ہوں اور یہاں بھی چل رہا ہے۔ دوپہر کو کھانے کی بریک میں بیگم کو میسیج کر کے بیٹے کا پوچھا تو وہ اسے سلانے کے لیے لیٹ چکی تھی جس کا مطلب ہر جانب سب ویسا ہی چل رہا ہے جیسا آج سے ایک مہینہ پہلے تھا۔ میرا یہاں ہونا، یا وہاں رہنا ایک سا ہی ہے لیکن شاید بہت اندر کہیں کچھ تبدیلیاں آئی ہوں یا کچھ یادیں دل و دماغ کی دیواروں میں کھرچی گئی ہوں لیکن ان کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے اپنے آپ سے ملنے کا وقت چاہئیے جو اب پتہ نہیں کب ملے۔
لیکن ایک مہینے کی چھٹی کے بعد میں آپ سب کو پھر سے السلامُ علیکم کہتا ہوں
آخری تدوین: