کچھ تو اے یار! علاجِ غمِ تنہائی ہو --- عمران شناور

کچھ تو اے یار علاجِ غمِ تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو

ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں‌
ڈوبنے کے لیے لازم نہیں گہرائی ہو

جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو

میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو

آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے
داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو

کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

یوں گزر جاتا ہے عمران ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو

(عمران شناور)
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے عمران صاحب آپ کی، بہت خوب!

کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

واہ واہ واہ، لا جواب

 

مغزل

محفلین
عمران شناور صاحب محفل میں صمیم ِ‌قلب سے خوش آمدید
آپ کا کلام نظر نواز ہوا ، بہت شکریہ ۔ مطلع تا مقطع سبھی اشعار اپنی معروضی معاملت میں بہت خوب ہیں
جوا شعار سب سے زیاد متاثر کن ہیں ان پر ایک بار پھر داد ۔ اللہ کرے زورِ قلم مشقِ سخن تیز۔

جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو

آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے
داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو

کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

آپ کا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ ۔
والسلام
 
کل رات ایک بجے کے بعد موبائل ریڈیو ٹیون کرنے کا اتفاق ہوا تو fm 103 پر کسی لڑکی کو یہ مصرعہ پڑھتے سنا:
جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
مجھے تشویش ہوئی۔ دوبارہ ایف ایم 103 لگایا تو محترمہ میری ہی غزل سنا رہی تھی۔ مطلع چونکہ پہلے ہی سنا چکی تھیں۔ دوسرا شعر ٹیوننگ کے دوران سننے سے قاصر رہا جبکہ بقیہ اشعار سے دو میں تبدیلی کچھ اس طرح تھی:
میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتی
چاہتی یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو

یعنی موئنث نے مذکر کو موئنث کر لیا تھا

اب میں انتظار کرنے لگا کہ مقطع کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ جس میں میرا نام بھی شامل ہے تو مقطع کچھ یوں تھا:

یوں گزر جاتا ہے محسن وہ ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو

اس کے بعد میں‌حیرت اور خوشی کے جذبوں سے سرشار کافی دیر تک سوچتا رہا
”یہ کیا ہو رہا ہے“
 

محمد وارث

لائبریرین
کل رات ایک بجے کے بعد موبائل ریڈیو ٹیون کرنے کا اتفاق ہوا تو fm 103 پر کسی لڑکی کو یہ مصرعہ پڑھتے سنا:
جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
مجھے تشویش ہوئی۔ دوبارہ ایف ایم 103 لگایا تو محترمہ میری ہی غزل سنا رہی تھی۔ مطلع چونکہ پہلے ہی سنا چکی تھیں۔ دوسرا شعر ٹیوننگ کے دوران سننے سے قاصر رہا جبکہ بقیہ اشعار سے دو میں تبدیلی کچھ اس طرح تھی:
میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتی
چاہتی یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو

یعنی موئنث نے مذکر کو موئنث کر لیا تھا

اب میں انتظار کرنے لگا کہ مقطع کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ جس میں میرا نام بھی شامل ہے تو مقطع کچھ یوں تھا:

یوں گزر جاتا ہے محسن وہ ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو

اس کے بعد میں‌حیرت اور خوشی کے جذبوں سے سرشار کافی دیر تک سوچتا رہا
”یہ کیا ہو رہا ہے“

یہ چلن بہت عام ہو گیا ہے انٹرنیٹ کی وجہ سے، ابھی کچھ ہفتے پہلے زرقا مفتی صاحبہ نے 'فیس بُک' پر شکایت کی تھی کہ انکی ایک نظم کسی اور محترمہ کے نام سے ایک بلاگ پر تھی۔ صفدر ہمدانی صاحب کافی عرصے سے اس مسئلے پر شور مچا رہے ہیں۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے۔

لیکن خوشی کی بات ہے عمران صاحب کہ آپ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے :)
 
آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے
داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو

کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

یوں گزر جاتا ہے عمران ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو
بہت خوب عمران صاحب، بہت اچھی غزل ہے
 
بہت ہی عمدہ کلام ہے پڑھ کر مزا آگیا۔ ویسے آخری مصرع میں واقف اور سودائی کے مقامات پر ایک دوسرے کے متضاد الفاظ کا محل دکھتا ہے۔ ویسے یوں بھی برا نہیں ہے۔
 
Top