ماشاء اللّٰه ، بہت اچھا کلام ہے یاسر بھائی،
جزاک الله خیر
"کچھ تو کرنا چاہیے"
لیکن کیا؟؟؟؟
بھائی عبدالرؤف !
اصل میں اس موضوع پہ یہاں جو کھل کے بات کر سکتے ہیں اور جن کو کرنا بھی چاہیے وہ خاموش ہیں یا گویا کہ خاموش ہیں ،ایک صاحب نے یہ تجویز دی کہ عالمِ اسباب میں دو تراکیب ہیں فلسطینیوں کی امداد کی ،ایک صدق دل سے دعا اور دوسری حکمرانوں کو اسلامی اتحاد پہ آمادہ کرنا -خوب کہا اور اس کہنے پہ انھیں کوئی منفی ریٹنگ بھی نہیں ملی اور دو چار مثبت ریٹنگ بھی مل گئیں -اور کیا چاہیے -
نہایت ادب سے یہی کہوں گا کہ یہ دونوں تراکیب عالمِ برزخ کے لیے بھی ہو سکتی ہیں وہ یوں کہ عالم برزخ سے بھی بہتوں کا دعائیں مانگنا ثابت ہے اور حکمرانوں کو باور کرانا سعی لاحاصل ،یوں دونوں تراکیب برزخی ہیں- سوچنا چاہیے کہ کیا ہم گھریلو معاملات اور پریشانیوں میں بھی ایسا ہی سرسری اور سطحی سوچتے ہیں -
دوسری طرف ایک طبقہ ہے جو بقراطیاں جھاڑ رہا ہے ،ان کے لیے ہر چیز پہلے بھی کئی بار ہو چکی ہے لہٰذا اس بار ان پر کوئی اثر نہیں کر رہی ،دعائیں بھی اس لیے نہیں مانگتے کہ پہلے بھی کئی بار مانگ چکے ہیں اور ہنوز معاملات روز اول ہیں ،لیکن یہ لوگ انڈا پراٹھا کھانا نہیں چھوڑ رہے یہ سوچ کر کہ روز صبح ہی تو کھاتے ہیں اور قد نہیں بڑھتا بس توند ہی بڑھے جا رہی ہے، ان کو ہر صبح انڈے پراٹھے میں ایک نیا لطف ملتا ہے ،القصّہ کرنا کچھ نہیں اور اس کچھ نہ کرنے کی جھینپ بھی مٹانی ہے سو فلسفہ بگھارا جا رہا ہے -
تبلیغ والے صبح مشورے کے لیے جب بیٹھتے ہیں تو دین اسلام کے لیے سوچنے اور فکرمند ہونے کے فضائل میں احادیث سناتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ صرف اس باب میں سوچنے کا عمل بھی ایک اجرِ عظیم رکھتا ہے لیکن اسی مشورے میں ہی آپ دیکھیں گے کہ کچھ مجھ جیسے جماہیاں لیتے ہوئے اسی کہنے پہ اکتفا کرتے ہیں کہ فلاں بھائی صحیح کہہ رہے ہیں اور ڈھمکاں بھائی کی تجویز سے میں متفق ہوں -بھائی !فلاں بھائی اور ڈھمکاں بھائی کو چھوڑ تو نے بھی کچھ سوچنے کا کشٹ کیا ہے یا نہیں -تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جب سے ہماری مسلمانی ہوئی ہے ہم نے مسلمانوں کے لیے کھپڑیا شریف کے اندر کا استعمال تقریبا ترک کر دیا ہے -
حالانکہ قابلِ غور بات ہے ،میں کبھی کبھی اس رخ پہ سوچتا ہوں کہ جسمِ انسانی میں اعضاء کی ترتیب میں بھی ایک سبق ہے -سب سے اوپر جو سر کو رکھا گیا تو کیوں رکھا گیا پھر دماغ کی حفاظت کے لیے جو کھوپڑی (skull)بنائی گئی وہ پورے جسم میں سب سے سخت ہڈی ہے ،دل کی حفاظت کے لیے پسلیاں (ribs) بھی اس قدر سخت نہیں جتنی کھوپڑی سخت ہے تو بات یہ ہے کہ جہاں خزانہ زیادہ ہوتا ہے وہیں چوکیدار بھی زبردست ہوتے ہیں :
کھوپڑی بے سبب نہیں یاسر
کچھ تو ہے جس کی چوکیداری ہے
پھر قرآن میں بھی جابجا ارشاد ہوا کہ عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں -روفی بھائی ! آپ :شاہ دولہ کا چوہا : کردار سے واقف ہی ہوں گے -ایک جاہلانہ رسم ہے کہ منت کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے سر پر ایک لوہے کی ٹوپی پیدائش سے ہی والدین کی طرف سے دائمی طور پر پہنا دی جاتی ہے -اس ٹوپی کی سر پر گرفت بہت سخت ہوتی ہے ،جس سے اس کے سر کی نشو و نما نہیں ہو پاتی اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر بھی اس کا سر چھوٹا رہ جاتا ہے اور بیچارہ پاگل ہو جاتا ہے -تو جس طرح سر پر لوہے کی ٹوپی پہننے سے عقل کی نشو و نما نہیں ہوتی اسی طرح عقل کے عدم استعمال سے بھی قریب قریب یہی عالم ہوتا ہے کہ ذہن چند مخصوص امور کے متعلق سوچنے سے آگے نہیں بڑھ پاتا -بس ایسی ہی لوہے کی ٹوپیاں ہم نے اندر ہی اندر خود اپنے آپ کو پہنا رکھی ہیں -کیا خوب کہا اقبال نے :
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ