احسن مرزا
محفلین
کہتی ہے کچھ تو اُس کی حیا غور سے سنو
'طوفاں کی آرہی ہے صدا غور سے سنو'
آنکھوں سے، ابروئوں سے، تبسم سے، زلف سے
ہوگا بیاں نئے سے نیا غور سے سنو
لازم ہیں کچھ تو ایسی محبت میں زخم بھی
ڈھارس بندھا رہی ہے وفا غور سے سنو
آہٹ بتا رہی ہے کہیں وہ قریب ہیں
ممکن ہے دل تو رُک کے ذرا غور سے سنو
صحرا کے طول و عرض پہ پھیلا ہے اب جنوں
تم نے عبث ہے مجھ سے کہا غور سے سنو
اچھا نہیں ہے ذکرِ محبت اِدھر اُدھر
دل میں رکھو یہ راز ذرا غور سے سنو
ممکن ہے آرزو نہ رہے گی مگر صنم
کیا کیا نہ ہوگا حشر بپا غور سے سنو
(آتش جلا رہی ہے مجھے عشق کی بہت)
کندن بنا رہی ہے وفا غور سے سنو
فرقت میں اک دعائے تجلی جو مانگ لی
کیا کیا نہ طورِ دل پہ ہوا غور سے سنو
پردے پڑے ہیں عقل پہ احسن کرو بھی ختم
ایسے کبھی سخن بھی ہوا غور سے سنو