شاذ تمکنت کچھ عجب شان سے لوگوں میں رہا کرتے تھے | غزل ۔ شاذ تمکنت

شاعر بدنام

محفلین
کچھ عجب شان سے لوگوں میں رہا کرتے تھے
ہم خفا رہ کے بھی آپس میں ملا کرتے تھے

اتنی تہذیب راہ و رسم تو باقی تھی کہ وہ
لاکھ رنجش سہی وعدہ تو وفا کرتے تھے

اُس نے پوچھا تھا کئی بار مگر کیا کہئے
ہم مزاجاً ہی پریشان رہا کرتے تھے

ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشا گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے

زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے

ہم برس پڑتے تھے شاذ اپنی ہی تنہائی پر
ابر کی طرح کسی دَر سے اٹھا کرتے تھے


شاذ تمکنت (مرحوم) ، حیدرآباد ، انڈیا۔ً
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ بہت خوب شاعر بدنام صاحب! شاذ تمکنت کی بہت خوبصورت غزل شئیر کی ہے۔ بہت شکریہ! کچھ اپنا تعارف بھی کروائیے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
'محفلِ ادب' میں بھی خوش آمدید قبلہ۔

اور بہت شکریہ 'پورے اہتمام' کے ساتھ خوبصورت غزل پوسٹ کرنے کیلیے، نوازش آپ کی مجھے کام سے بچانے کیلیے :)
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے جناب۔ بہت شکریہ۔
ایک مصرع میں "راہ" کی بجائے "رہ" لکھا جائے گا:
اتنی تہذیبِ رہ و رسم تو باقی تھی کہ وہ
 
Top