شاعر بدنام
محفلین
کچھ عجب شان سے لوگوں میں رہا کرتے تھے
ہم خفا رہ کے بھی آپس میں ملا کرتے تھے
اتنی تہذیب راہ و رسم تو باقی تھی کہ وہ
لاکھ رنجش سہی وعدہ تو وفا کرتے تھے
اُس نے پوچھا تھا کئی بار مگر کیا کہئے
ہم مزاجاً ہی پریشان رہا کرتے تھے
ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشا گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے
ہم برس پڑتے تھے شاذ اپنی ہی تنہائی پر
ابر کی طرح کسی دَر سے اٹھا کرتے تھے
شاذ تمکنت (مرحوم) ، حیدرآباد ، انڈیا۔ً
ہم خفا رہ کے بھی آپس میں ملا کرتے تھے
اتنی تہذیب راہ و رسم تو باقی تھی کہ وہ
لاکھ رنجش سہی وعدہ تو وفا کرتے تھے
اُس نے پوچھا تھا کئی بار مگر کیا کہئے
ہم مزاجاً ہی پریشان رہا کرتے تھے
ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشا گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے
ہم برس پڑتے تھے شاذ اپنی ہی تنہائی پر
ابر کی طرح کسی دَر سے اٹھا کرتے تھے
شاذ تمکنت (مرحوم) ، حیدرآباد ، انڈیا۔ً