گلوں کی فصل، بونے کا پتہ دے گی
کہ خوشبو آپ ہونے کا پتہ دے گی
÷÷ پہلا مصرع میرے خیال میں درست نہیں۔۔ دوسرے بونے کی طرف دھیان جا رہا ہے۔۔۔
بتانے کی ضرورت کیوں پڑے گی جب
چمک، پوشاک دھونے کا پتہ دے گی
÷÷÷بالکل غیر واضح ہے۔۔ آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پوشاک دھلی ہوئی ہے، دھونے کا مطلب تو دوسرا نکلتا ہے۔۔۔
ملا تھا وہ، تو آنکھوں کی چہک بولی
نگہ ویران، کھونے کا پتہ دے گی
÷÷÷ چہک کو چمک کردیاجائے تو پہلا مصرع تو موزوں ہوجائے گا لیکن ایسی صورت میں بھی دوسرا مصرع اس کا ساتھ دیتا دکھائی نہیں دیتا۔۔۔
سُنو، یہ زندگی اب بوجھ لگتی ہے
مری ہر چال، ڈھونے کا پتہ دے گی
÷÷÷ نہیں۔۔ یہ بھی درست نہیں۔۔ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زندگی بوجھ ہے، آپ اسے ڈھو رہے ہیں، لیکن ڈھونا غزل کی زبان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ میں نہیں سمجھتا کسی بھی غزل گو شاعر کو اس فعل کا استعمال کرنا چاہئے۔
مری چیخیں سُنو، یہ غیر ممکن ہے
تو پھر کیا چیز رونے کا پتہ دے گی
۔۔۔ درست، لیکن پہلا مصرع مزید بہتر ہوسکتا ہے، معنوی اعتبار سے آپ کو کہنا چاہئے کہ ’’اگر میری چیخیں سننا ہی غیر ممکن ہے‘‘۔۔۔ تو غور کیجئے کہ اگر کا لفظ اور باقی سب الفاظ آپ اس مصرعے میں کیسے یکجا کریں گے۔۔۔
سکوں ہو گا ابد کی نیند میں اظہر
دبی مسکان سونے کا پتہ دے گی
۔۔۔ بالکل درست۔۔۔ کوئی اعتراض نہیں۔۔۔