احسان دانش کچھ لوگ جو سوار ھیں کاغذ کی ناؤ پر (احسان دانش)

کچھ لوگ جو سوار ھیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ھیں ھوا کے دباؤ پر

موسم ھے سرد مہر ، لہو ھے جماؤ پر
چوپال چپ ھے ، بھیڑ لگی ھے الاؤ پر

سب چاندنی سے خوش ھیں ، کسی کو خبر نہیں
پھاہا ھے مہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر

اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر

سورج کے سامنے ھیں نئے دن کے مرحلے
اب رات جا چکی ھے گزشتہ پڑاؤ پر

گلدان پر ھے نرم سویرے کی زرد دھوپ
حلقہ بنا ھے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر

یوں خود فریبیوں میں سفر ھو رھا ھے طے
بیٹھے ھیں پل پہ اور نظر ھے بہاؤ پر
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ ۔۔۔۔!

کیا اچھی غزل ہے۔

یوں خود فریبیوں میں سفر ھو رہا ہے طے
بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر


بہت خوب
 
اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر

بے حس اور خود غرض اور بے انصاف معاشرے کی درست عکس بندی !
بہت اچھا انتخاب ہے۔ :)
 
Top